کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 267
دھاتی سکوں کے ذریعے مضاربہ درست نہیں کیونکہ مضاربہ عقد ِ غرر ہے جو ضرورت کی بنا پر جائز قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ انہی چیزوں کے ساتھ خاص رہے گاجو اکثر مروّج ہوں اور ان کے ساتھ تجارت آسان ہو اوروہ نقد میں ہیں ‘‘۔یعنی دھاتی سکے زر نہیں ۔ ''فذھب الشافعيۃ و الحنابلۃ إلٰی أن الفلوس کالعروض فلا تجب الزکاۃ فيها إلا إذا عرضت للتجارۃ‘‘۔ [1]’’شافعی اور حنبلی فقہاء کی رائے میں دھاتی سکے سامان کی طرح ہیں ، چنانچہ ان میں زکوٰۃ اسی وقت واجب ہو گی جب یہ تجارت کی غرض سے ہوں ‘‘۔ ان فقہاء کے نقطہ نظر کی تائیداس سے بھی ہوتی ہے کہ کسی حدیث میں دھاتی سکوں کی زکوٰۃکا تذ کرہ نہیں ملتا حالانکہ عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ موجود تھے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اگر یہ زر ہوتے تو سونے چاندی کی طرح ان کی زکوۃ کا بھی ذکر ہوتا۔ سیدنا ابو ذرضی اللہ عنہ کی اس روایت کہ انہوں نے اپنی لونڈی سے کہا: ’’اس کے فلوس خرید لو‘‘۔سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ صحابہ کے ہاں دھاتی سکے سامان شمار ہوتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہائے احناف کے نزدیک دھاتی سکے زر ہیں ، اسی لئے وہ ان میں زکوٰۃ بھی واجب قرار دیتے ہیں ، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ کے نزدیک متعاقدین دھاتی سکوں کو متعین کر کے ان کی زر ی حیثیت ختم کر سکتے ہیں ، اس صورت میں یہ سامان کے حکم میں ہوتے ہیں اوران حضرات کے نزدیک کمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ بھی صحیح ہو تا ہے۔ ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ فقہاء کی نظر میں دھاتی سکے( فلوس) یا تو زر ہی نہیں یا پھر ناقص زر ہیں ، اسی لئے وہ ان سے زرکاوصف ختم کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔جو صورت بھی ہو بہر حال کرنسی نوٹوں کو ان پر قیاس نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ نہ تودھاتی سکوں کی طرح ان میں سامان کا پہلوغالب ہے۔ یہ تو محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں، ان کی جو حیثیت بھی ہے، وہ ان کی پشت پر حکومتی ضمانت کی وجہ سے ہی ہے اور نہ ہی
[1] ايضا:205،32