کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 266
’’الرابع ما هوسلعۃ بالأصل وثمن بالاصطلاح کالفلوس... إلی أن قال إذا علمت هذا فالنوط هو من القسم الرابع سلعۃ بأصله لأ نہ قرطاس وثمن بالاصطلاح لأنه يعامل به معاملۃ الأثمان‘‘ [1] ’’مال کی چوتھی قسم وہ ہے جو اصل میں تومال ہے، لیکن اصطلاحی لحاظ سے زر ہے جیسے دھاتی سکے ہیں ...جب یہ معلوم ہوگیا تو، سنو نوٹ کا تعلق چوتھی قسم سے ہے جو حقیقت میں سامان ہے کیونکہ یہ کاغذ ہے اور اصطلاحی طور پر زر ہے، کیونکہ اس سے زر جیسا معاملہ کیاجاتاہے‘‘۔ لیکن یہ رائے بھی قوی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اہل علم کے ہاں دھاتی سکوں میں زر کی بجائے سامان کا پہلو غالب ہے، یہی وجہ ہے کہ جمہور فقہاء نہ توکمی بیشی کے ساتھ ان کا تبادلہ مکروہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کو شراکت و مضاربت میں رأس المال بنانے کی اجازت دیتے ہیں ۔نیزان میں زکوٰۃبھی اسی صورت واجب قرار دیتے ہیں جب ان کو فروخت کر کے نفع کمانا مقصود ہو۔ جیساکہ الموسوعۃ الفقهيۃمیں ہے : ’’الأصح عند الشافعيۃ والصحيح عند الحنابلۃ وهو قول الشيخين من الحنفيۃ وقول عند المالکيۃ: أنها ليست أثمانا ربويۃ وأنها کالعروض‘‘ ’’امام ابوحنیفہ ،امام ابو یوسف رحمہم اللہ اورمالکی فقہاء کاقول ،حنابلہ کا صحیح مسلک اور شافعیوں کاصحیح ترین نقطہ نظر یہی ہے کہ دھاتی سکوں میں ربا نہیں ہے بلکہ یہ سامان کی طرح ہیں ‘‘۔[2] ’’ذهب جمهور الفقهاء: أبو حنيفۃ وأبو يوسف والمالکيۃ علی المشهور و الشافعيۃ والحنابلۃ إلی أن المضاربۃ لا تصح بالفلوس لأن المضاربۃ عقد غرر جوز للحاجۃ فاختص بما يروج غالبًا وتسهل التجارۃ به وهو الأثمان‘‘. [3] ’’امام ابو حنیفہ ،ابویوسف ، مالکی(مشہور مسلک کے مطابق) شافعی اور حنبلی فقہاء کا خیال ہے کہ
[1] کفل الفقیہ الفاھم فی أحکام قرطاس الدراھم:ص33 [2] 32:205 [3] الموسوعۃ الفقهيۃ: 3846،47