کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 265
کا حامل ہے، اس لئے عصر حاضر کے اہل علم اس کی تائید نہیں کرتے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ نوٹ سونے، چاندی کا متبادل ہیں ۔ اگراس کے پیچھے سونا ہو تو سونے اور اگر چاندی ہو توچاندی کامتبادل ہو گا۔ ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان منیع لکھتے ہیں : ’’ اس نظریہ کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ قیمت کے اعتبار سے یہ نوٹ اپنی اس اصل کی طرح ہے جس کے یہ بدل ہیں یعنی سونا اور چاندی، کیونکہ ان کا اصل چاندی یا سونا ان کی پشت پر ان کے زرِ ضمانت کے طور پر موجود ہے اور مقاصد ِشرعیہ کاتعلق تو اصل اور حقائق سے ہے نہ کہ الفاظ اور ان کی بناوٹ سے‘‘۔ [1] اس نقطہ نظر کے مطابق نوٹوں کے باہمی لین دین میں سود کے احکام بھی جاری ہوں گے اور جب یہ دو سو درہم چاندی یا بیس دینار سونے کی قیمت کے مساوی ہوں تو سال کے بعد ان پرزکوٰۃ بھی واجب ہوگی۔اسی طرح ان کے ذریعے بیع سلم بھی درست ہو گی۔ لیکن یہ رائے بھی کمزور ہے، کیونکہ اس کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ نوٹ کی پشت پر سونا یاچاندی ہے حالانکہ امر واقع میں ایسا نہیں ۔ چنانچہ جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان منیع اس کی خود تردید کرتے ہیں : ’’یہ نظریہ بھی حقیقت ِواقعہ کے مطابق نہ ہونے کی بنا پر قابل التفات نہیں ،کیونکہ اس کا دارومدار کرنسی نوٹوں کی اصل پر ہے اور اصل جیسا کہ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ تو کرنسی نوٹوں کی پشت پر ہے نہیں۔ بلکہ اکثر ممالک کے نوٹ محض ساکھ کی بنا پر ،زبانی ضمانتوں اور حکومتوں کے جاری کردہ ہونے کی بنا پر رائج اور قابل قبول ہیں ، ورنہ ان کے پیچھے نہ تو سونا ہے نہ چاندی۔ بلکہ کچھ ایسے ہیں جنہیں پراپرٹی کی ضمانت حاصل ہے اور کچھ کو محض اقتدار کی ضمانت۔ لہٰذا یہ نظریہ خلافِ واقعہ ہونے کی بنا پر بہت کمزور ہے‘‘۔ [2] نوٹ کی شرعی حیثیت کے متعلق چوتھی رائے یہ ہے کہ نوٹ دھاتی سکوں (فلوس ) کی طرح اصطلاحی زر ہیں جیسا کہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے لکھا ہے :
[1] کاغذی کرنسی کی تاریخ :ارتقا اورشرعی حیثیت: ص [2] أيضاً: ص61