کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 249
زرکی حقیقت
زَر کوعربی میں نَقْد کہتے ہیں اور مشہور لغت’’ المعجم الوسیط‘‘ میں نقد کا معنی یوں لکھا ہے:
’’النقد: (في البيع) خلاف النسيئة ويقال: درهم نقد: جيد لا زيف فيه (ج) نقود۔والعملة من الذهب أو الفضة وغيرهما مما يتعامل به وفن تمييز جيد الکلام من رديئه،وصحيحه من فاسده‘‘۔[1]
’’خرید و فروخت میں نقد کا معنی ہوتا ہے: وہ شے جو اُدھار نہ ہو ، نیز عمدہ قسم کا درہم جس میں کھوٹ نہ ہو، اس کو’’درہم نقد‘‘ کہا جاتا ہے۔اس کی جمع نقود آتی ہے۔ اور نقد اس کرنسی کو کہتے ہیں جس کے ذریعے لین دین ہوتا ہو، خواہ سونے کی بنی ہو یا چاندی کی یاان دونوں کے علاوہ کسی دوسری چیز سے۔ عمدہ اور ردّی، صحیح اور فاسد کلام کے مابین امتیاز کرنے کے فن کو بھی ’’نقد‘‘ کہتے ہیں ‘‘۔
فقہی لٹریچر میں نقد کا لفظ تین معانی کے لئے آتا ہے
—سونے چاندی کی دھاتیں خواہ وہ ڈلی کی شکل میں ہوں یا ڈھلے ہوئے سکوں کی صورت میں ۔ چنانچہ فقہاء کی عبارات میں سونے چاندی کے لئے’’النقدان‘‘ کا لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے ۔
—سونے چاندی کے سکوں کے لئے چاہے وہ عمدہ ہوں یا غیر عمدہ۔ سونے چاندی کے علاوہ کسی دوسری دھات سے بنے ہوئے سکوں کو’’ فُلُوْس ‘‘ کہتے ہیں ۔اس معنی کے مطابق فلوس نقد میں شامل نہیں ۔
—ہر وہ چیز جو بطورِ آلۂ تبادلہ استعمال ہو، چاہے وہ سونے کی ہو یا چاندی، چمڑے،پیتل اورکاغذ وغیرہ کی شکل میں ، بشرطیکہ اس کوقبولیت ِعامہ حاصل ہو ۔عصر حاضر میں نقد کا لفظ اس تیسرے معنی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے ۔[2]
جبکہ اقتصادی ماہرین نقد(زَر)کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں
’’إن للنقد ثلاث خصائص متی توفرت في مادة مَّا، اعتبرت هذه المادة نقدًا
[1] ص 944
[2] الموسوعۃ الفقهيۃ:41173