کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 245
ایک)کا سودا کرنے میں سنجیدہ ہوں ۔اور اگر یہ سودا نقد و ادھار میں تردد کے ساتھ واقع ہو کہ کسی ایک قیمت پر یقینی اتفاق نہیں ہوا تو یہ شرعا جائز نہیں ہے ۔ 2مدت سے مربوط کسی بھی قسم کی بیع میں شرعا یہ جائز نہیں کہ اس معاہدے میں حالیہ قیمت سے قسطوں کے منافع کا الگ سے ذکر کیا جائے جوکہ وقت سے مربوط ہو ۔چاہے فریقین اس منافع کو فیصدی طور پر اتفاق کریں یا اسے مارکیٹ ریٹ سے مربوط کریں۔[1] 3خریدار اگر قسطوں کی ادائیگی میں طے شدہ وقت سے تاخیر کرے ۔ تو ایسی صورت میں اس کی قسطوں کی رقم کو کسی صورت بڑھایا نہ جائے گا نہ ہی کسی سابقہ شرط کی صورت میں یا بغیر شرط کے کیونکہ یہ حرام کردہ سود ہے ۔ 4ایسا مقروض جو ادائیگی کرسکتا ہے اس پر ادائیگی میں سستی کرنا حرام ہے لیکن اس کے باوجود ادائیگی میں تاخیر پر اس پر کوئی مالی جرمانہ نہیں لگایا جائے گا ۔ 5 بائع کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ خریدار کی طرف سے چند اقساط کی تاخیر سے ادائیگی کے سبب دیگر اقساط کی مدت مختصر کردے ( یعنی وہ قسطیں مقررہ وقت سے پہلے وصول کرے ) بشرطیکہ قرضدار نے بوقت عقد اس شرط پر اتفاق کیا ہو۔ 6فروخت کنندہ کو معاہدہ کے بعد ملکیت رکھنے کا حق حاصل نہیں البتہ اس کے لئے یہ جائز ہے کہ مشتری پر سامان کے بطور ضمانت گروی رکھنے کی شرط لگا دے تاکہ اس کی تمام اقساط ادا ہوجائیں ۔[2] شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ : جب کسی آدمی کے پاس کوئی سامان ہو اور خریدار اس شخص سے وہ سامان نقد کے بجائے ادھار میں زیادہ قیمت ادا کرکے خریدنا چاہےتو اس کا شرعی حکم
[1] { FN 202 }اس شرط کو مثال سے ایسے سمجھا جائے کہ بائع خریدار سے کہے کہ میں فلاں گاڑی تمہیں نقد قیمت پر دس لاکھ میں بیچوں گا اور اگر قسطوں پر لو گے تو ایک سال کیلئے دس پرسنٹ اوپر لوں گا یا مارکیٹ ویلیو کے مطابق لوں گا ۔ اس کی ممانعت کا سبب قیمت کی لاعلمی ہے ۔ جوکہ جائز نہیں ۔ [2] قرار داد نمبر :51 (2/6) قسطون کے کاروبار کے حوالے سے : مجلۃ المجمع: ع6ج1ص193 اور ع7ج2ص9