کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 219
علامہ ڈاکٹر محمد سلیمان اشقر سلم سے اسلامی بینکوں کے فائدہ اٹھانے کے طریقہ کار کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں:
’’دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بینک چیز کی مارکیٹنگ کے لئے فروخت کنندہ کو ہی اپنا وکیل مقرر کردے خواہ اس کی اجرت دے یا نہ دے۔تو اگر یہ وکالت پہلے سے عقد سلم سے مربوط ایگریمنٹ کے ذریعے ہوتو یہ عمل باطل ہوگا جو جائز نہیں کیونکہ یہ ایک عقد میں دو عقد جمع کرنے کے مترادف ہے اور اگر (ایگریمنٹ تو نہ ہو مگر) پہلے ہی سے ذہن میں یہ ہو کہ معاملہ اس طرح تکمیل کو پہنچے گا تو پھر بھی یہ جائز نہیں‘‘۔[1]
(15)سلم متوازی
یہاں یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی بینکوں میں سلم سے فائدہ اٹھانے کا جو طریقہ اسلامک بینکنگ کے ماہرین نے تجویز کیا ہے اس کو "سلم متوازی"کہتے ہیں۔یعنی بینک کسی تیسرے فریق کے ساتھ سلم کا معاہدہ کرلے جس کی تاریخ ادائیگی پہلی سلم والی ہی ہو۔متوازی سلم میں مدت کم ہونے کی وجہ سے قیمت زیادہ ہوگی اور یوں دونوں قیمتوں میں فرق بینک کانفع ہوگا۔مگر ہمارے ہاں اسلامی بینکوں میں یہ طریقہ شاذو نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔زیادہ تر فروخت کنندہ کو ایجنٹ بنانے کا طریقہ ہی اختیار کیا جاتا ہے جو شرعاً درست نہیں۔[2]
وصلی اللّٰه و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ اجمعین
[1] بحوث فقهية قضایا اقتصادية معاصرة:ج1 ص:214
[2] دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم از حافظ ذوالفقار علی حفظہ اللہ