کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 218
(14) مزعومہ اسلامی بینکوں میں سلم کا استعمال
حافظ ذوالفقار علی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
بلا شبہ سلم ایک بہترین غیر سودی تمویل(financing) ہے جو عصر حاضر میں بھی لوگوں خصوصاً کاشتکاروں اور مینو فیکچرز کی مالی ضرورتیں پوری کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور بعض اسلامی بینک اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔لیکن ہمارے ہاں اسلامی بینک اس کی عملی تطبیق میں گڑبڑ کرتے ہیں جس سے یہ معاملہ شرعی اصول کے مطابق نہیں رہتا ۔وہ یوں کہ گنے کے سیزن میں شوگر ملوں کو گنا خریدنے کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ملز مالکان چاہتے ہیں کہ ہمارا مقصد بھی پورا ہو جائے اور ہم سود سے بھی محفوظ رہیں اب وہ اسلامی بینک کی طرف رجوع کرتے ہیں ،بینک اس شرط پر رقم فراہم کرتا ہے کہ آپ نے ہمیں اس کے عوض فلاں تاریخ تک اتنی چینی مہیا کرنی ہے یعنی بینک سلم کا معاہدہ کر لیتا ہے شوگر ملز کی طرف سے فراہمی یقینی بنانے کے لئے بینک ضمانت بھی طلب کرتا ہے چونکہ بینک کاروباری ادارہ نہیں جو آگے بیچنے کے لئے گاہک تلاش کرتا پھرے اس لئے معاہدے کے وقت ہی یہ بھی طے کر لیا جاتاہے کہ مل مالک بینک کے وکیل کی حیثیت سے یہ چینی مارکیٹ میں اس قیمت پر فروخت کرکے رقم بینک کے سپرد کریگا۔بعض دفعہ معاہدے کے وقت اس کی صراحت نہیں ہوتی مگر فریقین کے ذہن میں یہی ہوتا ہے۔اگر شوگر مل بروقت چینی فراہم نہیں کرتی توبینک دی گئی رقم کے فیصد کے حساب سے جرمانہ وصول کرتا ہے جو بینک کی زیر نگرانی قائم خیراتی فنڈ میں جمع کروایا جاتاہے۔
بینک کا خود قبضہ کرنے کے بجائے فروخت کنندہ کو ہی وکیل بنانا شرعی اصول کے خلاف ہے۔
چنانچہ علماء احناف کے سرخیل علامہ سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ سلم کے ذریعے بیچی گئی چیز فروخت کنندہ کے ذمہ ادھار ہوتی ہے اور جس کے ذمہ ادھار ہو وہ خود اپنی ذات سے اس کی وصولی کے لئے اس شخص کا وکیل نہیں بن سکتا جس کا اس کے ذمہ ادھار ہو‘‘۔[1]
[1] 1المبسوط:ج15 ص101