کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 217
بعد والی آیت میں بصورت ِادھار رہن کی اجازت دی گئی ہے۔لہٰذارہن کا جواز بیع سلم میں قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے۔[1]
امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’باب الرھن فی السلم‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے اور اس میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین مدت کے لئے ایک یہودی سے غلہ لیا تو اس کے عوض میں اس کے پاس لوہے کی زرہ گروی رکھی۔
(11) سلم میں کسی کوضامن بنانا
شارح صحیح بخاری علامہ داؤد راز دھلوی رحمہ اللہ "باب الکفیل فی السلم "کے تحت وارد ہونے والی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
معلوم ہوا سلم یا قرض میں اگر کوئی دوسرا شخص سلم والے یا قرض دار کاضامن ہو تو یہ درست ہے۔
(12)سلم کے ذریعہ خریدی گئی چیز کو قبضہ سے قبل آگے فروخت نہ کیا جائے
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’ سلم کے ذریعے خریدی گئی چیز کو قبضہ سے قبل فروخت کرنے کی حرمت میں ہم کسی اختلاف کا علم نہیں رکھتے۔بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضہ سے قبل غلے کی بیع سے منع فرمایا ہے۔‘‘[2]
(13)تجارت میں سلم کا استعمال
اکثر علماء کی رائے میں یہ رعایت تاجروں کے لئے بھی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں چنانچہ انہوں نے ’’باب السلم الی من لیس عندہ اصل‘‘ قائم کرکے اس کا اثبات کیا ہے۔
اس باب کے تحت جو وہ روایت لائے ہیں وہ مختصراًپچھلے صفحات میں گزر چکی ہے کہ صحابہ کرام جس سے بیع سلم کا معاملہ کرتے اس سے مال کی موجودگی کا دریافت نہ فرماتے تھے۔ [3]
[1] سورة البقرة :282
[2] دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم
[3] فصیل کیلئے حوالہ مذکورہ بالا