کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 215
سلم ہر شخص سے کرنا درست ہے۔مسلم فیہ(یعنی وہ سامان جس میں سلم کیا گیا ہے ) یا اس کی اصل اس کے پاس موجود ہو یانہ ہواتنا ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ معاملہ کرنے والا ادا کرنے اور وقت پر بازارسے خرید کر یا اپنی کھیتی یا مزدوری وغیرہ سے حاصل کر کے اس کے ادا کرنے کی قدرت رکھتاہے یا نہیں۔[1]
(5) تمام اجناس میں بیع سلم جائز ہے۔
جیسا کہ صحیح بخاری میں موجودیہ الفاظ اس بات کے مؤید ہیں’’من أسلف فی شیء…‘‘جو کسی بھی چیز میں سلف (سلم )کا معاملہ کرے ۔
یہاں ’’فی شیء‘‘ کہا گیا جو تمام جائز اشیاء کو شامل ہے۔البتہ شرائط ضرور ملحوظ رکھی جائیں۔
(6) قلاش آدمی اور بیعِ سلم۔
علامہ محدّث داؤد راز دھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر کوئی شخص قلاش محض ہو اور وہ بیع سلم کر رہا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دھوکہ سے اپنے مسلمان بھائی کا پیسہ ہڑپ کرنا چاہتاہے اور آج کل عام طور پر ایسا ہوتا رہتاہے(لہٰذا سلم کے وقت اس کا دھیان بھی رکھنا چاہئے)۔[2]
(7) مخصوص باغ یا زمین کے مخصوص قطعہ کی پیداوار میں بیع سلم کرنے کا حکم۔
مخصوص باغ یا زمین کے مخصوص قطعہ کی پیداوار میں بیع سلم کرناجائز نہیں ،کیونکہ اس میں غرر پایا جاتا ہے، ممکن ہے وہ باغ پھل نہ دے یا قطعہ زمین میں فصل ہی نہ ہو۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص باغ کی کھجور میں بیع سلم نہیں کی۔
علامہ ابن المنذر رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع ذکر کیا ہے کہ متعین باغ وزمین کی پیداوار میں سلم کی ممانعت پر علماء متفق ہیں۔[3]
[1] صحیح بخاری:کتاب السلم، ترجمہ و تشریح از مولانا محمدداؤد راز، جلد 3
[2] صحيح بخاري:كتاب السلم،باب السلم في وزن معلوم
[3] دیکھئے المغنی از ابن قدامہ۔البیوع