کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 214
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: صحیح اور حق بات یہی ہے جسے شافعیہ نے اختیار کیا ہے کیونکہ کسی بھی حکم کو بغیر دلیل کے لازم کر لینا درست نہیں۔[1] (2) مدّتِ مقررہ تک مال ادا نہ کیا گیا ۔ معروف عالم شیخ عبدالستار حماد صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’اگر اس (طے شدہ) مدت میں مال مہیا نہ کیا جائے تو تاجروں کے عرف میں اسے جرمانہ تو کیا جاسکتا ہے، لیکن ریٹ وغیرہ میں کمی کرنے کا دباؤنہیں ڈالا جاسکتا ،(کیونکہ) اس(بیعِ سلم ) میں رقم پیشگی ہی ادا کرنا پڑتی ہے، بصورت دیگر طرفین سے ادھار ہوگا جو شرعاً درست نہیں ہے۔‘‘ [2] (3) ’’معاہدہ بیعِ سلم‘‘ میں ادائیگی کی جگہ کا تعین نہیں کیاگیا ہوتو؟ الشیخ ابو بکر الجزائری حفظہ اللہ فرماتے ہیں: اگر ’’معاہدہ بیع‘‘ میں ادائیگی کی جگہ کا تعین نہیں کیاگیا تو ’’مقام معاہدہ‘‘ ہی ادائیگی کی جگہ طے پائے گا۔اگرجگہ کا تعین کیاگیا ہے تو اس پر عمل کیاجائے گا اور اس بارے میں جس جگہ ادائیگی پر دونوں متفق ہوں ، اس کے مطابق عمل کیا جائے گا اس لئے کہ مسلمان معاملات میں جو شرطیں طے کر لیں ان کی پابندی ضروری ہے۔[3] (4) کیا مسلم فیہ (طے شدہ چیز) کا مسلم الیہ(جسے قیمت دی گئی یعنی فروخت کنندہ ) کے پاس ہونا ضروری ہے؟ اس سلسلے میں معلوم ہو کہ یہ شرط تو بہر حال نہیں ہے، البتہ انتہائے مدت تک اس کا دستیاب ہونا ضروری ہے۔صحیح بخاری شریف میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ لوگوں نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ (بیعِ سلم کے وقت) کیا ان لوگوں کے پاس کھیتی موجود ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم ان سے اس کے متعلق پوچھتے نہیں تھے۔ جس سے یہ بات واضح ہے کہ مطلوبہ چیز کا فروخت کنندہ کے پاس ہونا شرط نہیں ہے وگرنہ اُس چیز کا اگر فروخت کنندہ کے پاس ہوناضروری ہوتا تو وہ اُس کا سوال ضرور کرتے۔ علامہ محدث داؤد راز دھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] فقہ السنہ 152/3 [2] 2فتاویٰ اصحاب الحدیث 253/2 [3] 3منہاج المسلم :مترجم ص :547