کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 172
خلاصہ کلام
اسلامی بینک کے قیام کا بنیادی مقصد معاشرہ کو سود اور عوام کو مالی ظلم و استحصال سے بچا نا اور اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی سنجیدہ کوششیں کرنا تھا۔ اسی لئے ابتداء میں علماء نے یہ طے کیاتھا کہ اسلامی بینک مضاربہ اور مشارکہ جیسے شراکت داری والے معاملات کی طرف زیادہ توجہ دے گا ، اورچونکہ ابتداء میں اسلامی بینک کو مشکلات کا سامنا تھا اس لئے مرابحہ اور اجارہ کو عبوری دور کے لئے اسلامی بینکاری نظام میں شامل کیا گیا تھا بلکہ کئی علماء نے اس کی عبوری دور کے لئے بھی اجازت نہیں دی تھی۔ اب اسلامی بینک اپنے ابتدائی دور سے گزر کر پختہ دور تک پہنچ چکا ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جن بینکوں نے مرابحہ کو ابتدائی طور پر عبوری نظام کی حیثیت سے اپنایا تھا وہ بتدریج اس کو ختم کر کے مضاربہ اور مشارکہ کی جانب آتے ، لیکن صورتحال اس کے بالکل بر عکس ہے، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں اس کی وضاحت کی جاچکی ہے۔اسلامی بینکوں نے اب مرابحہ ، اجارہ اور مشارکہ متناقصہ ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے ، جبکہ اس میں سود کا شائبہ بھی ہے ، صارف کا استحصال بھی ، سودی حیلہ بھی اور مشکوک معاملات بھی!، اب ایسے نظام سے یہ توقع رکھنا کہ یہ معاشرہ کو اسلامی معاشی نظام کی جانب لے کر جائے گا بالکل عبث اور بیکار ہے، خصوصاً اب جبکہ اس نظام کو تقریباً ایک تہا ئی صدی سے زیادہ بلکہ نصف صدی گزر چکی ہے ۔اس لئے جو علماء اب بھی اس نظام کے حامی ہیں انہیں چاہئے کہ یا تو اس نظام کی اصلاح کے لئے انقلابی اقدامات اٹھائیں یا پھر اس نظام کو یہ سمجھ کر جائز نہ کہیں کہ یہ نظام ابھی اپنی ابتدائی عمر سے گزر رہا ہے اس لئے اسے وقت دیا جائے!۔بلکہ ہماری نظر میں مروجہ مرابحہ اور سودی بینکوں کا سودی قرضہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ، بلکہ اس سے بھی کڑوی حقیقت تو یہ ہے کہ صارفین کے لئے سودی بینک ، اسلامی بینکوں سے کہیں زیادہ رحم دل واقع ہوئے ہیں۔