کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 169
نسبت 95 فیصد ہے‘‘۔[1] (2) ڈاکٹر صالح کامل جو اسلامی بینکوں کی جنرل کونسل کے سربراہ ، اور البرکہ اسلامی بینک اور اردن اسلامی بینک کے بانی ہیں کہتے ہیں: " بشرنا الناس بأن [المصرف الإسلامي سيقود الأمة] نحو التنمية الاقتصادية وزيادة المصادر وتشغيل العاطل وتأهيل العاجز، ولكن أقول بكل الصدق والتجرد: أننا أخذنا مفهوم البنك [الربوي]، ولم نستطع أن نتجاوز نمط الوساطة المالية؛ فأصبحت الصيغ الاستثمارية المفضلة لدى البنوك الإسلامية هجينًا بين القرض والاستثمار يحمل معظم سمات القرض الربوي وعيوب نظام الرأسمالي الغربي ويعجز عن إبراز معالم الاستثمار الإسلامي المبني على المخاطرة وعلى الاستثمار الحقيقي۔" ’’اسلامی بینکنگ کے آغاز میں ہم نے لوگوں کو یہ خوشخبری دی تھی کہ اسلامی بینک اس امت کو اقتصادی ترقی ، ذرائع آمدنی میں اضافہ، بے روزگار کو روزگار اور عاجز کو با صلاحیت بنانے کی جانب گامزن کرے گا ، لیکن اب میں بالکل سچائی اور غیر جانبداری سے کہتا ہوں کہ: ہم نے سودی بینکوں کا ہی مفہوم اپنا لیا ہے، ہم ایک درمیانی مالی واسطہ کی حیثیت سے آگے ہی نہ بڑھ سکے ، اور اب اسلامی بینکوں کا سب سے پسندیدہ طریقہ سرمایہ کاری ، قرض اور سرمایہ کاری کا دوغلی نسل کا بچہ ہے ، جس میں سودی قرض کی اکثر علامات بھی ہیں اورمغربی سرمایہ دارانہ نظام کی خامیاں بھی ہیں، اور یہ اسلامی بینک اسلامی سرمایہ کاری کی اکثر صفات کے اظہار سے لاچار ہے جو کہ مخاطرت اور حقیقی سرمایہ کاری پر مبنی ہے‘‘۔ یہ دو اقوال ہی عبرت کے لئے کافی ہیں ، یہ ان افراد کا اعتراف ہے جو کہ نہ صرف اسلامی بینک کے بھرپور مؤید رہے ہیں ، بلکہ اسلامی بینکوں میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں اور اسلامی بینکوں کے معاملات سے
[1] الشرق الاوسط۔ 24/10/2010