کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 163
شخص اپنے اوپر کوئی نیک کام لازم کر لے تو اس پر لازم ہوجاتا ہے یا نہیں؟، اور اس حوالہ سے علماء کے اختلاف سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اس دلیل کواگر قبول کر بھی لیتے ہیں تو چند سوال ذہن میں ابھرتے ہیں جن کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکا کہ :  کیا مرابحہ کا معاہدہ بینک تیار کرتا ہے یا صارف ؟۔ اگر معاہدہ بینک بناتا ہے اور تمام شرائط بینک نے پہلے سے تحریر کی ہوئی ہوتی ہیں اور صارف نے صرف دستخط کرنے ہوتے ہیں تو اس میں صارف کی رضامندی اور التزام صرف دستخط ہی سے تصور کئے جاتے ہیں؟ ۔ اگر صارف یہ کہے کہ میں اس صدقہ کا التزام نہیں کروں گا تو کیا بینک اس سے مرابحہ کا معاہدہ کرے گا؟۔  کیا بینک کا بغیر التزام کے صارف سے معاہدے سے انکار کردینے کو صارف پر صدقہ کے التزام کے حوالہ سے جبر تصور نہیں کیا جائیگا؟۔ کیا کبھی مروجہ اسلامی بینک نے کسی صارف سے اس صدقہ کے التزام کے بغیر کوئی ایک معاہدہ بھی کیا ہے؟۔ (4) تاخیر کی صورت میں مالی جرمانہ لگایا جاسکتا ہے؟ اگر قرضدار مالدار اور قرض ادا کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود ادائیگی میں جان بوجھ کر تاخیر کا مرتکب ہو تو وہ شریعت کی نظر میں ظالم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’مطل الغني ظلم‘‘ ’’مالدار (قرضدار ) کا (ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے‘‘[1]۔ بلکہ شریعت نے اس حوالہ سے قرض خواہ کی رہنمائی بھی کی ہے کہ وہ اس صورت میں کیا کرے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’لي الواجد يحل عرضه وعقوبته‘‘ ’’مالدار کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت اور اس پرسزا کو حلال کردیتا ہے‘‘۔[2] لیکن تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ یہ جرمانہ مالی نہیں لگایا جائے گا ، ابن المبار ک اس حدیث کی توضیح میں فرماتےہیں : ’’عزت حلال ہونے سے مراد ہے کہ اس پر سختی کی جائے گی اور اس کی سزا سے مراد ہے کہ
[1] صحیح بخاری:کتاب الحوالات، باب الحوالۃ و ھل یرجع فی الحوالۃ [2] سنن أبي داؤد کتاب الاقضیۃ، باب فی الحبس فی الدین وغیرہ(حسن)