کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 162
بقایہ رقمسے حساب کر کے متعین کیا جائے گا۔ 3.نام نہاد صدقہ کی رقم خود بینک ہی وصول کرتا ہے ، اور صارف پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ یہ رقم بینک میں ہی جمع کرائے ۔ بلکہ بینک اس رقم کو اپنا حق تصور کرتا ہے اور اس کی وصولی کے لئے عدالت میں بھی جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ اسٹیٹ بینک کی اسی مرابحہ دستاویز میں تحریر ہے: "In case (i) any amount(s) referred to in clause 10.01 above, including the amount undertaken to be paid directly to the Charity Fund, by the Client, is not paid by him, or (ii) the Client delays the payment ... the Institution shall have the right to approach a competent Court ... (ii) for imposing of a penalty on the Client". ’’درج بالا شق نمبر 10.01 میں مذکور رقم ، اور خیراتی فنڈ میں دی جانے والی وہ رقم جس کا صارف نے اپنے اوپر التزام کیا تھا اگر وہ صارف کی طرف سے ادا نہیں کی جاتی یا اس کی ادائیگی میں تاخیر کی جاتی ہے ۔۔۔ تو بینک مجاز عدالت میں جانے کا حق رکھتا ہے ۔۔۔ تاکہ صارف پر جرمانہ نافذ کیا جاسکے‘‘۔ اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ اسلامی بینک صدقہ کی رقم کو اپنا حق سمجھتا ہے اور اس کی وصولی کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ تو اس رقم کو صدقہ کہنے کی پھر کیا دلیل رہ جاتی ہے؟۔ 4.صدقہ ایک عبادت اور خیرات و تعاون ہے ، اور تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جو عمل تبرع ِمحض ہے ، صرف تعاون پر مبنی ہے اس میں کوئی الزام وجبر نہیں کیا جا سکتا۔ مؤیدین اسلامی بینک یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ صدقہ بینک نے صارف پر لازم نہیں کیا بلکہ صارف نے خود اس کا التزام لیا ہے ، اور اگر کوئی شخص کسی نیک کام مثلاً، صدقہ ، ہدیہ وغیرہ کو اپنے اوپر لازم کرے تو وہ لازم ہوجاتا ہے جیسا کہ مالکیہ ودیگر بعض علماء نے ذکرکیا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کیا یہ دلیل درست ہے یا نہیں؟، اور کیا واقعتاً جب کوئی