کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 160
فخلاف الإجماع‘‘۔’’مرجوح قول پر فیصلہ کرنا یا فتوی دینا (علماء کے ) اجماع کے خلاف ہے‘‘۔[1] (2) تنگ دست اور مالدار میں فرق نہ کرنا اسلامی نظام معیشت کی بنیادی خوبی اور اعلی وصف یہ ہے کہ اس نظام نے جہاں حقوق کی ادائیگی کے حوالہ سے سختی رکھی ہے وہاں مجبور کی مجبوری کا بھی احساس کیا ہے ، اور تنگ دست قرضدار کی مجبوری کا احساس کرتے ہوئے ایک سنہرا اصول بیان کیا کہ : ’’{وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَّأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}(البقرة: 280)کہ اگر:’’(قرضدار) تنگ دست ہو تو اسے مہلت دو اس کی آسانی تک ،اور اگر تم (یہ قرض ) اس پر صدقہ کر (کے چھوڑ ) دو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو‘‘۔ سودی نظامِ بینکاری کا ظلم و استحصال ہی یہی ہے کہ وہ سود لینے کے ساتھ ساتھ وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں تنگدست و مالدار میں کوئی فرق کئے بغیر جرمانہ عائد کرتا ہے ، اور وہ تنگ دست جو اصل رقم دینے کی سکت بھی نہیں رکھتا بینک کے ظالمانہ شکنجے میں دبا رہتا ہے۔ مروجہ اسلامی نظام بینکاری کی بنیاد اگر اسلام کے اصولوں پر رکھی گئی ہے تو اس کی یہ بنیادی خوبی ہونی چاہئے تھی کہ یہ اسلام کی طرف سے تنگدست و مجبور افراد کے لئے عطا کی گئی ہمدردی ، سہولت ، احسان جیسے اعلی اوصاف سے مزین ہوتا تاکہ سودی نظام بینکاری کے صحیح اور حقیقی متبادل کی صورت میں پوری دنیا میں متعارف ہوتا، لیکن مروجہ اسلامی نظام بینکاری، اسلامی نظام معیشت کے اس بنیادی وصف سے کوسوں دور نظر آتا ہے اور بالکل سودی نظام بینکاری کی مانند بے رحم اور بے حس قرض خواہ کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی بینک مرابحہ کے آغاز ہی میں صارف سے یہ وعدہ لے لیتا ہے کہ مقررہ وقت پر عدم ادائیگی کی صورت میں ایک مخصوص رقم ادا کرنا ہوگی جسے اسلامی بینک صدقہ کا نام دیتا ہے، اور بینک کو اس بات سے کوئی غرض و دلچسپی نہیں ہوتی کہ صارف کی عدم ادائیگی کی کیا وجہ ہے ؟ کیا وہ تنگدست یا مجبور تو نہیں ؟ کیا وہ قرآن میں بیان کردہ ’’ذو عسرۃ‘‘ میں تو شامل نہیں کہ جو قرآن کے مطابق مہلت کے
[1] الإحكام في تمييز الفتاوى عن الأحكام وتصرفات القاضي والإمام للقرافي ص 92