کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 159
نزدیک بعض صورتوں میں جائز ہو ، لیکن کسی اور مسلک کے مرجوح قول کو اختیار کرنا تو کسی بھی عالم کے نزدیک جائز نہیں خاص طور پر اس صورت میں جبکہ وہ قول سود جیسے گناہ کی طرف لے جائے، بلکہ صاحبِ مسلک کا اپنے مسلک کے راجح قول کو چھوڑ کر مرجوح اختیار کرنے کو بھی علماء نے ناجائز قرار دیا ہے تو پھر کسی اور مسلک کے مرجوح اقوال کو اختیار کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟۔ علامہ قاسم ابن قطلوبغا حنفی کہتے ہیں : ’’ إني قد رأيت من عمل في مذهب أئمتنا بالتشهي، حتى سمعت من لفظ بعض القضاة: وهل ثمّ حجر؟ فقلت: نعم. اتباع الهوى حرام، والمرجوح في مقابلة الراجح بمنزلة العدم‘‘[1]۔ ’’ میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جو ہمارے ائمہ کے مسلک میں اپنی خواہشات سے عمل کرتے ہیں ، حتی کہ میں نے بعض قاضیوں کو یہ کہتے سنا : کہ کیا یہ ممنوع ہے ؟ ، میں نے کہا: جی ہاں بالکل ، خواہشات کی پیروی حرام ہے ، اور راجح قول کے مقابلہ میں مرجوح ،معدوم (بالکل نہ ہونے) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح ابن عابدین حنفی لکھتے ہیں: ’’الواجب على من أراد أن يعمل لنفسه، أو يفتي غيره أن يتبع القول الذي رجّحه علماء مذهبه، فلا يجوز له العمل أو الافتاء بالمرجوح‘‘. ’’جو شخص خود کوئی عمل کرنا چاہے یا کسی اور کو فتوی دینے لگے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس قول کو اختیار کرے جسے اس کے مذہب کے علماء نے راجح قرار دیا ہے ، اور اس کے لئے کسی مرجوح قول پر عمل کرنا یا فتوی دینا جائز نہیں‘‘[2] خودمالکی مسلک کے عالم ابو الولید الباجی  فرماتے ہیں : ’’وأما الحكم والفتيا بما هو مرجوح
[1] تصحیح القدوری،ص 1 [2] عقود رسم المفتی ،ص 4