کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 158
امداد بھی کی جاسکتی ہے اور اس سے لوگوں کو بلا سود قرض بھی دیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ رقم بینک کی آمدنی میں شامل نہیں ہوگی۔ یہ طریقہ زیادہ مفید اس لئے ہے کہ اس طریقہ میں رقم کی شرح متعین نہیں ، زیادہ سے زیادہ بھی رکھی جاسکتی ہے ، اس سے قرضدار پر دباؤ ہوگا‘‘۔[1] دلیل : اس صدقہ کے جواز کے لئے دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ بعض مالکیہ کا مؤقف ہے کہ اگر کوئی شخص قرض لیتے ہوئے ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اپنے اوپر صدقہ کی شرط لگا لے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس شرط کو پورا کرے اور اس کے لئے امام حطاب المالکی کی اس عبارت کو پیش کیا جاتا ہے : ’’إذا التزم أنه إذا لم يوفه حقه في وقت كذا، فعليه كذا وكذا لفلان أو صدقة للمساكين فهذا محل الخلاف المعقود له هذا الباب،فالمشهور أنه لا يقضي به … وقال ابن دينار يقضى به‘‘۔ ’’ جب قرضدار اپنے اوپر یہ لازم کرے کہ اس نے قرض خواہ کا حق اس کے وقت پر ادا نہیں کیا تواس پر فلاں (غیر قرض خواہ) کے لئے اتنا مال لازم ہے یا مساکین کو صدقہ کرنا لازم ہے ، تو اس میں اختلاف ہے ، اور اسی کو بیان کرنے کے لئے یہ باب باندھا گیا ہے، پس مشہور (راجح قول ) یہ ہے کہ اس پر فیصلہ نہیں کیا جائے گا ، اور ابن دینار کہتے ہیں کہ اس پر فیصلہ کیا جائے گا‘‘۔[2] اس دلیل کے جواب میں چند نکات پر بات کرنی ہوگی: (1) راجح قول کے مقابلہ میں مرجوح کا اختیار: اس معاملہ میں مالکیہ کے علاوہ دیگر تمام مسالک میں اجماع ہے کہ ادائیگی قرض میں تاخیر کی صورت میں قرضدار پرکسی بھی قسم کا جرمانہ یا قرضدار کا اپنے اوپر التزام جائز نہیں۔ صرف مالکیہ میں اختلاف ہے اور وہ بھی جیسا کہ امام حطاب مالکی رحمہ اللہ نے خود ذکر کیا کہ یہ قول مالکیہ میں سے صرف ابن دینار اور ابن نافع کا ہے اور مالکی مسلک میں یہ قول’’ مرجوح یعنی ناقابل قبول‘‘ ہے، اور راجح قول وہی ہے جو دیگر تمام ائمہ و مفتیان کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے مسلک کو چھوڑ کر دوسرے مسلک کی راجح بات یا قول پر عمل کرنا تو شاید بعض علماء کے
[1] اسلام اور جدید معیشت و تجارت 144 – [2] تحرير الكلام في مسائل الالتزام، ص 170-172