کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 156
کیونکہ مفتی صاحب نے جو مثال دی ہے اس میں دوسرے بھائی نے پہلے بھائی کی اس چیز کو اپنایا ہے جو حرام نہیں تھی یعنی شرح منافع ، پہلے بھائی کے کاروبار میں اصل جو چیز حرام تھی وہ شرح منافع نہیں تھا بلکہ وہ چیز تھی جو بیچی جارہی تھی یعنی شراب۔ اگر دوسرا بھائی اس شراب کو اپناتے ہوئے کوئی ایسی چیز بیچتا جو شراب کے مثل ہوتی یعنی کوئی نشہ آور چیز بیچتا تو وہ حرام کے زمرے میں داخل ہوجاتا۔ جبکہ اسلامی بینک اس چیز کو اپنارہے ہیں جو اصلاً حرام ہے یعنی شرح سود! دونوں مثالوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، لہٰذا اس مثال کو یہاں منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ (2) دوسری بات یہ ہے کہ مرابحہ کے منافع کو () سے منسلک کردینے کی صورت میں مرابحہ کے جواز کیلئے علماء کی بیان کردہ ایک انتہائی اہم شرط میں خلل واقع ہوجا تا ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ مرابحہ میں بیچنے والا اپنا منافع صاف اور متعین کر کے بتائے ۔ جبکہ () اور () منضبط شرح سود نہیں ہیں بلکہ ان میں یومیہ، ہفتہ وار، یا ماہانہ بنیادوں پر تغیر واقع ہوتا رہتا ہے اور اس کے کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں منافع میں کمی یا زیادتی واقع ہوتی رہے گی جو کہ ناجائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکوں کے لئے قوانین مرتب کرنے والی کتاب ’’المعايير الشرعية‘‘ میں درج ہے کہ :’’ مرابحہ میں واجب ہے کہ سامان کی قیمت اور منافع معین ہو اور معاہدہ کرتے وقت طرفین کے علم میں ہو۔ اور کسی بھی حال میں یہ جائز نہیں کہ سامان کی قیمت یا منافع کو کسی نامعلوم تناسب پر چھوڑ دیا جائے یا کسی ایسے تناسب پر جو مستقبل میں قیمت یا منافع تعیین کرے۔ جیسا کہ یہ جائز نہیں کہ بیع مرابحہ کرتے وقت منافع کو () کے تناسب پر چھوڑ دیا جائے‘‘۔[1] ( چوتھا اعتراض ) اقساط کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ ۔اس جرمانہ کو صدقہ کا نام دیا جاتا ہے ۔ المعاییر الشرعیہ میں ہے : ’’ يجوز أن ينص في عقد المرابحة للآمر بالشراء على التزام العميل المشتري بدفع مبلغ أو نسبة من الدين تصرف في الخيرات في حالة تأخره عن سداد الأقساط في مواعيدها
[1] المعايير الشرعية: المرابحة ، رقم المعيار 4 / 6،ص 96