کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 155
اس چارٹ میں چھ بینکوں کا شرح منافع درج ہے ، ان میں سے تین اسلامی بینک ہیں اور تین سودی بینک ہیں اور تمام بینکوں کا ایک مہینہ کا شرح منافع بالکل یکساں ہے۔ *اسلامی بینکوں سے ہونے والے مرابحہ، اجارہ میں لئے جانے والے منافع یا کرایہ کی شرح بھی سودی بینکوں سے دئیے جانے والے قرضہ پر سود کی شرح کے بالکل قریب یا کبھی کبھی زیادہ ہوتی ہے۔  اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی زیادتی کا اسلامی بینک کے مارک اپ اور ڈیپازٹرز کو ادا کئے جانے والے منافع پربہت نمایاں اثر ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ اسلامی بینک کا شرح سود کو معیار مقرر کرنا خالی از معنی نہیں ہے ، بلکہ یقیناً اسلامی بینکوں کے معاملات میں ایسی خامیاں موجود ہیں جن کی بناء پر انہیں اپنے منافع کو شرح سود سے مربوط کرنا پڑتا ہےاور یہی چیز ان بینکوں کو اسلامی قرار دینے میں اصل رکاوٹ ہے۔ (ایک اور دلیل) مفتی تقی عثمانی صاحب ، مرابحہ میں منافع کو شرح سود سے مربوط کرنے کے جواز کی دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ : اس کی مثال یوں ہے کہ دو بھائی کاروبار کرتے ہیں ، ایک بھائی شراب بیچتا ہے اور اس میں وہ منافع کی شرح پانچ فیصد رکھتا ہے ، دوسرا بھائی شراب نہیں بیچتا بلکہ کوئی حلال مشروب بیچتا ہے لیکن اس میں وہ اپنے بھائی کی شرح منافع کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا منافع بھی پانچ فیصد ہی رکھتا ہے ، تو ہم دوسرے بھائی کے کاروبار کو حرام تو نہیں کہیں گے ، کیوں کہ وہ تو بالکل جائز چیز بیچ رہا ہے بس شرح منافع میں وہ اپنے بھائی کے شرح منافع کو معیار مقرر کرتا ہے، اسی طرح اسلامی بینک کا مرابحہ کا معاملہ بالکل حلال ہے اور شریعت کے مطابق ہے ، وہ صرف شرح منافع میں سودی بینکوں کے شرح منافع کو معیار مقرر کرتا ہے سودی کام تو نہیں کرتا لہٰذا ایسا کرنے سے اسلامی بینک کا معاملہ حرام نہیں ہوتا‘‘[1] اس دلیل کے جواب میں دو باتیں عرض کروں گا: (1) اگرچہ یہ ایک عقلی دلیل ہے اور اس کا نصوص سے کوئی تعلق نہیں اس کے باوجود بھی یہ دلیلبرمحل نہیں ہے ،
[1] An Introduction of Islamic Finance (82)