کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 153
معاملہ صریحاً سود اور حرام ہوجاتا ہے۔ اسی لئے خود مفتی تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں : ’’ کلائنٹ کو وکیل بنادینا تاکہ وہ تمویل کار کی طرف سے اس چیز کو خرید لے ، مرابحہ کو مشتبہ بنادیتا ہے‘‘[1]اسی طرح اسلامی بینکوں کے لئے شرعی معیار مقرر کرنے والی کتاب ’’ المعاییر الشرعیہ ‘‘ میں ہے کہ :’’الأصل أن تشتري المؤسسة السلعة بنفسها مباشرة من البائع ويجوز لها تنفيذ ذلك عن طريق وكيل غير الآ مر بالشراءو ولا يلجأ لتوكيل العميل (الآمر بالشراء) إلا عند الحاجة الملحة‘‘[2]۔’’ اصل یہ ہے کہ بینک خود براہ راست بیچنے والے سے سامان خریدے ، اور اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ کسی وکیل کے ذریعہ خریداری کرے لیکن یہ وکیل صارف نہ ہو، اور صارف کو کسی انتہائی ضرورت کے بنا وکیل نہ بنایا جائے‘‘۔ اس کے باوجود بھی تقریباً تمام اسلامی بینک بنا کسی خاص ضرورت کے صارف ہی کو وکیل مقرر کرتے ہیں۔ ( تیسرا اعتراض ) ) کو معیار مقرر کرنا۔ اسلامی بینک مروجہ مرابحہ میں نفع کے تعین کے لئے شرح سود کو معیار مقرر کرتا ہے۔ () سے مراد ہے Karachi Interbank Offered Rate جو کہ دراصل قرض پر سود وصول کرنے کے لئے ایک تناسب یا شرح ہے جوپاکستان کے تمام سودی بینکوں کے سود کی شرح کو دیکھ کر یومیہ ، یا ہفتہ وار یا ماہانہ طے کیا جاتا ہے۔اسی طرح بین الاقوامی سطح پر () ایک شرح سود ہے جو کہ London Interbank Offered Rate کا مخفف ہے، اور یہ دنیا کے تقریباً دس بڑے بینکوں کے شرح سود کو سامنے رکھ کر لندن میں بینکرز کی ایک فرم طے کرتی ہے اور دنیا کےتمام بینک اس شرح کو مستقبل کے سودوں کے لئے معیار بناتےہیں۔ اسلامی بینک کا شرح سود کو معیار بنانا نہ صرف یہ کہ مروجہ مرابحہ کو مشتبہ کردیتا ہے بلکہ پورے اسلامی بینکاری نظام کو مشکوک کردیتا ہے ۔ ایک عام شخص کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ آخر اسلامی بینک کا شرح سود سے کیا تعلق ہے؟۔
[1] اسلامی بینکاری کی بنیادیں:ص [2] المعايير الشرعية ، المرابحة ، رقم المعيار 3/1/3،ص 95