کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 15
ہے۔ ہر ملک کے ٹیکسوں کا نظام جاننا پڑتا ہے ۔ یہ مہارتیں حاصل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ نہ ہر شخص یہ مہارتیں حاصل کرسکتا ہے ۔ پاکستان کے کسی شہر میں مثال کے طور پر سیالکوٹ یا گوجرانوالہ میں بیٹھا ہوا ایک تاجر جب جرمنی اور کینیڈا سے کوئی سامان منگوانا چاہتا ہے یا جاپان اور سنگاپور کا کوئی تاجر گوجرانولہ اور سیالکوٹ کا بنا ہوا سامان خریدتا ہے تو نہ سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے تاجر کے لیے ممکن ہے کہ جرمنی ، جاپان اور دوسرے ممالک کے قوانین سے کما حقہ واقفیت حاصل کرے اور نہ یہاں بیٹھے بیٹھے وہاں کے ٹیکسوں کے نظام سے واقفیت حاصل کرنا آسان کام ہے ۔ بینکوں کے پاس یہ مہارتیں پہلے سے دستیاب ہوتی ہیں اور ان کی مدد سے یہ کام بہت آسانی کے ساتھ ہوجاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ بینکوں کے کردار کو اگر ختم کردیا جائے اور یہ ذمہ داری کسی اور ادارے یا اداروں کے سپرد نہ کی جائے ، تو بین الاقوامی تجارت کا نظام چشم زدن میں درہم برہم ہو سکتا ہے ۔ بین الاقوامی تجارت کا نظام درہم برہم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پوری دنیا کا نظام معیشت ، درآمد وبرآمد کا سارا سلسلہ چشم زدن میں زمین بوس ہوجائے ۔ [1] مروجہ اسلامی بینکوں کا کردار ایک سوالیہ نشان ؟ صحیح اسلامی بینکاری کا قیام از حد ضروی ہے لیکن مروجہ اسلامی بینکاری پر تکیہ کرنا اور لوگوں کو یہ طفل تسلیاں دینا کہ یہ تو ایک نوزائیدہ نظام ہے اور رفتہ رفتہ بہتری کی طرف بڑھے گا یہ بات مبنی بر انصاف نہیں ۔ بلکہ یہ نظام اب بہتری نہیں ابتری کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ عجب نوزائیدہ ہے کہ ستر اسی سال میں جواں ہی نہیں ہوا !!!مروجہ اسلامی بینکاری کی حیثیت ایک پروڈیکٹ کی مانند ہے جو مارکیٹ کی طلب کے مطابق کام کر رہی ہے ۔ ابتدا میں اس نظام میں اتنی پیچیدگیاں نہیں تھیں مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ جیسےیہ نظام پھیلتا پھولتارہا ویسے ویسے اس کی اسلامیت بھی مشکوک ہونے لگی ۔ جن احباب نے اسلامی بینکوں کے سسٹم کو پڑھا ، ان کے طرز عمل وطریقہ تعامل کا گہرائی سے مطالعہ کیا ، اور اس نظام کے ارتقائی مراحل کا بغور مطالعہ کیاوہ یہ بات انتہائی وثوق سے کہتےہیں کہ اسلامی بینک بجائے اس کے کہ بہتر اور اچھانظام تشکیل دیں اور اپنی خامیاں دور کریں وہ کمرشل بینکوں کے ساتھ مداہنت اور میلان کی پالیسی پر قائم ہیں ۔
[1] محاضرات معیشت وتجارت ، ص 363، 364