کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 13
تجارتی بینکوں نے مضاربہ مشارکہ ترک کرکے مارک اپ کا طریقہ اپنالیا ۔ تئیس چوبیس سال کی اس جدوجہد ، اجلاسوں ، سیمینارز ، قراردادوں ، وفاقی حکومت کے اعلانات کا نتیجہ محض یہ نکلا کہ ؎ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے ترا حسن کرشمہ ساز کرے سالوں پر محیط جدوجہدکو محض حیلہ سازی اور چور دروازوں کے ذریعے پانی میں بہا دیاگیا۔ 2002ء میں پاکستان میں اسلامی بینکوں جنہیں دوسرے لفظوں میں بلا سودی بینک کہا جاسکتا ہے کو لائسنس دئے گئے جن میں سب سے پہلا لائسنس میزان بینک اور اس کے بعد البرکہ بینک کو دیا گیا ۔اس کے ساتھ ساتھ سودی بینکوں کو بھی اسلامی بینکاری کے نام پر علیحدہ شاخیں کھولنے کی اجازت مرحمت فرمادی گئی ۔ الغرض رطب و یابس کو یکجا کردیا گیا ۔ جس کا مقصد اسلام کے نام پر صارفین کی دولت کو سمیٹنا تھا۔ پاکستان میں اسلامی بینکوں کی ترقی کا تناسب دیکھا جائے تو روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دسمبر 2004ء کے اختتام تک اسلامی بینکوں کے اثاثے 44 بلین سے تجاوز کرچکے تھے ، اور ان میں ڈپازٹ کی مالیت 5.30بلین تھی ۔جولائی 2005ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں جو ایک نجی اکاؤنٹنسی فرم کے اسلامک بینکنگ ڈویژن کی مرتب کردہ تھی ، کہا گیا تھا کہ 2014ء کے اختتام تک پاکستان کے اسلامی بینکوں کے ڈپازٹس کی مالیت 780 بلین تک پہنچ جائے گی اور اس کی وسعت میں بحرین ، قطر اور کویت وغیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ اضافہ ہوجائے گا ۔ تاہم پاکستان میں اسلامی بینکاری کا تناسب اس روایتی بینکاری کے مقابلے میں آٹھ فیصد ہے ۔ اسٹیٹ بینک کے تخمینے کے مطابق 2020 ء تک یہ تناسب دس فیصد تک بڑھ جائے گا ۔ ‘‘ [1] الغرض اسلامی بینکاری سسٹم کا آغاز جس جوش وجذبے سے ہوا تھا جس کے پیچھے یقیناً ان افراد کا اخلاص اور جذبہ کار فرما تھا جنہوں نے دن رات کی انتھک محنت کے بعد اس کی داغ بیل ڈالی تھی اتنی ہی تیزی سے یہ پروگرام رول بیک ہوگیا ۔ اسلامی بینکوں کی مقبولیت میں انتہا درجے کی تیزی سے ایسے معلوم ہوتا تھا کہ بہت جلد انشاء اللہ یہ نظام اسلامی دنیا کو بالخصوص اور عالمی دنیا کو بالعموم روایتی بینکاری کے چنگل سے آزاد کرالے گا لیکن صد افسوس کہ بہت جلد یہ نظام انہی مغرب کے کارندوں کے ہاتھوں ہائی جیک ہوگیا
[1] روزنامہ جنگ کراچی اشاعت جمعرات 15نومبر 2012ء