کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 128
دیاجائے کہ مضارب اپنا فرض پوری دیانت داری سے ادا کر رہا ہے یا نہیں اور اگر عقلی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی ہے کہ ایک شخص نے خطیر رقم دی ہو اور اسے کاروبار سے بالکل ہی الگ تھلگ رکھاجائے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام مالک یہ پوچھاگیا کہ ایک شخص نے دوسرے کو مضاربت پر مال دیا ،اس نے محنت کی جس کے نتیجے میں اسے منافع حاصل ہوا ۔اب مضارب یہ چاہتا ہے کہ وہ سرمایہ کار کی غیر موجودگی میں منافع سے اپنا حصہ وصول کر لے تو کیایہ درست ہے ؟ اس پرامام مالک  نے فرمایا : ’’لا ينبغی له أن ياْخذ منه شَيْئًا إِلاَّ بِحَضْرة صَاحِبِ الْمالِ‘‘[1] ’’جب تک رَبُّ المال موقع پر موجود نہ ہو مضارب کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ منافع سے اپنا حصہ وصول کرے ۔‘‘ مروجہ اسلامی بینکوںمیںکرنٹ اکاؤنٹس کے علاوہ بقیہ تمام اکاؤنٹس عام طور پر مضاربہ کی بنیاد پر ہی کھولے جاتے ہیں یعنی بینک میں رقم رکھنے والے ربُّ المال اور بینک مضارب ہوتا ہے لیکن کسی بھی اسلامی بینک میں اس اصول پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ ہر اسلامی بینک کے اکاؤنٹ اوپننگ فارم میں یہ عبارت درج ہوتی ہے کہ : ’’بینک کی جانب سے متعین کردہ کوئی بھی رقم بطور نفع یا نقصان حتمی ہو گی اور تمام صارفین اس کے پابند ہوں گے ۔کسی صارف کو یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ ایسے نفع یا نقصان کے تعین کی بنیاد کے بارے میں سوال کرے ۔‘‘ بینک کی طرف سے اکاؤنٹ ہولڈر پر یہ پابندی عائد کرنا عدل وانصاف کے منافی اور ربُّ المال کی حق تلفی ہے۔اس ناروا شرط کا ہی نتیجہ ہے کہ اسلامی بینکوں کے منافع میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر ڈپازٹر کے منافع کی شرح وہی ہے حتی کہ بعض اسلامی بینکوں کے منافع میں ایک سال کے دوران ایک سو چھ فیصد تک اضافہ ہوا ہے لیکن ڈپازٹر ز کے پرافٹ میں اس حساب سے اضافہ نہیں کیاگیا ،صرف ایک آدھا فیصد اوپر
[1] مؤطا: باب المحاسبۃ في القراض