کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 12
’’ اسلامی نظریاتی کونسل نے جسٹس تنزیل الرحمٰن کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس منعقدہ 1983ء میں حکومت کو یاد دلایا کہ ملکی معیشت سے سود کے خاتمے کے لئے حکومت نے 1979ء میں تین سال کی جو مدت مقرر کی تھی وہ دسمبر 1981ء میں ختم ہوگئی ہے ۔ لیکن ابھی تک سودی نظام کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس گزشتہ پانچ سال کے دوران حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں وہ موجودہ سودی استحکام کا سبب بن رہے ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بارے میں جن حقائق کی نشاندہی کی ان میں سے چند یہ تھے : (1) تجارتی بینکوں میں پی ایل ایس کھاتوں کے ساتھ ساتھ سودی لین دین بھی ہورہاہے ۔ (2) نفع ونقصان میں شرکت کے نظام کے تحت جو رقوم وصول کی جارہی ہیں انہیں مارک اپ نظام کے تحت استعمال میں لایا جا رہاہے ۔ مشارکت کے معاہدوں کی بہت سی شرائط شرعی احکام سے متصادم ہیں ۔ (3)سودی بنیاد پر جاری بچت اسکیموں کو سود سے پاک سرمایہ کاری کے مقابلے میں زیادہ پر کشش بنادیاگیاہے ، مثلاً خاص ڈیپازٹس پر شرح سود پندرہ فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کردی گئی ہے ۔ (4) حکومت اور حکومت کے زیر انتظام اداروں نے سود کا نام بدل کر اسے منافع کہنا شروع کردیا ہے ۔ (5)ایسے میعادی کھاتوں پر جن کا لین دین سود کی بنیاد پر ہے ۔ زکوٰۃ وضع کی جارہی ہے جس سے زکوٰۃ کا تقدس مجروح ہو رہاہے ۔ (6) نفع ونقصان میں شراکتی کھاتوں میں جمع ہونے والی رقم کس کاروبار میں لگائی جارہی ہے اس کاکوئی ذکر نہیں ہے نہ ہی منافع کے حساب کا طریقہ بتایا گیا ہے‘‘ ۔ [1] اس کے بعد بھی سود کے خاتمے کے بہت سے وعدے کئے گئے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ 1984ء میں ملک کے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان نے قومی بجٹ کے موقع پر اعلان کیاکہ 1985ء میں ملک سود سے پاک ہوجائے گا اور یکم جولائی 1985ء کے بعد کوئی بینک سود کی بنیاد پر لین دین نہیں کرے گا ۔ اس حکم کے موجب اسٹیٹ بینک نے ایک اعلان تو جاری کردیا لیکن نہ اس میں بینکوں نے دلچسپی لی نہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے احکامات پر عملدرآمد کا جائزہ لیا اور نہ خلاف ورزی پر کسی کی گرفت کی ۔ کسی واضح طریقہ کار اور ڈائریکشن کے نہ ہونے اور باز پرس میں مجرمانہ غفلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ
[1] روزنامہ جنگ کراچی اشاعت جمعرات15 نومبر 2012ء