کتاب: جدید معیشت،تجارت مروجہ اسلامی بینکاری میزان شریعت میں خصوصی اشاعت - صفحہ 11
کاوشیں کی گئی ہیں کہ کسی طرح سود کی لعنت سے اس ملک کو پاک کیا جاسکے ۔ اس حوالے سے انفرادی اور اجتماعی کاوشیں لائق تحسین ہیں مگر ہم یہاں محض سرکاری سطح پر ہونے والی چند کاوشوں کا تذکرہ کریں گے ، جس سے یہ بھی اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے اربابِ اختیار اسلامی معیشت کے اصولوں کو اپنانے میں کتنے مخلص ہیں ؟ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اسلامی معیشت کے اصولوں سے ہم آہنگ ایسا طریقہ کار وضع کرے جس سے سود ی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ماہرین معاشیات اور بینکاری کے تعاون سے ایک عبوری رپورٹ نومبر1978ءمیں اور حتمی رپورٹ جون 1980ء میں پیش کی ۔ 10 فروری 1979ء کو ملک کے تین مالیاتی اداروں ، نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ ، آئی سی پی میوچل فنڈ اور ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے سود کے خاتمے کا اعلان کیا گیا جس پر یکم جولائی 1979ء کو عمل درآمد ہوا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کا لب لباب یہ تھا کہ : بلاسود بینکاری نفع ونقصان کی بنیاد پر قائم ہوگی ،بینکوں کا بیشتر کاروبار مشارکت ومضاربت پر مبنی ہوگا اور اجارہ ، مرابحہ ، وغیرہ محض وقتی متبادل کے طور پر استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔ 1980ء کے آخر میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے تمام تجارتی بینکوں کو یہ حکم جاری کیا کہ وہ 1981ء سے اپنے تمام معاملات غیر سودی بنیادوں پر قائم کرنے کے پابند ہوں گے ۔ اسٹیٹ بینک کے اس حکم نامے کے پیش نظر حکومتی تحویل میں موجود تجارتی بینکوں نے پی ایل ایس اکاؤنٹ کے نام سے غیر سودی کھاتے کھولنے کی اسکیم شروع کی اور عندیہ دیا کہ رفتہ رفتہ پورے بینکاری نظام کو غیر سودی نظام میں تبدیل کردیا جائے گا ۔ بلا سود بینکاری کے قیام کی ابتدا سے لیکر اسٹیٹ بینک کا حکم نامہ جاری ہونے اور تجارتی بینکوں کی عملداری تک جو جملہ پیش رفت ہوئی وہ محض اتنی تھی کہ مارک اپ کے نام پر سود کو ایک نئی شناخت دے دی گئی اس کے علاوہ اس میں کوئی کام نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی بینک اسلامی نظام معیشت پر چلنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوا ۔ اہل علم نے اس تمام عمل کو ایک ڈھونگ اور اسلام کے نام پر شرمناک فریب ، اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کاوش قرار دیا ۔