کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 91
’’اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اس کی طرف متوجہ رہو، وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی) دے گا‘‘۔ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو یہ ہی درس دیا،جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نےکیا:(فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا يُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًاوَّيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّيَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا)[ نوح آیت: 10تا13 ] ’’اور میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ (اور معافی مانگو) وہ یقیناً بڑا بخشنے والا ہےوہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گااور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لئے نہریں نکال دے گا۔تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی برتری کا عقیدہ نہیں رکھتے۔‘‘ چوتھا علاج:اللہ تعالیٰ کا ذکر فرمان باری تعالیٰ ہے: (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ)[الرعد:28] جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔ ذکر اللہ سے مراد اللہ تعالیٰٰٰ کی توحید بھی ہے، ذکر اللہ سے مراد دعا،تلاوت قرآن،نوافل بھی ہے۔ کائنات کے امام کا فرمان ہے:’’جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے،وہ درست ہو تا ہے تو سارا جسم صحیح ہوتا ہے، اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے اور وہ دل ہے۔‘‘[1] فرمان باری تعالیٰ ہے:[فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ][البقر ۃ:152] ’’ اس لئے تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا‘‘۔
[1] صحیح بخاری:کتاب الایمان،باب فضل من استبرأ لدینہ