کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 9
بعض لوگوں کی عقل موٹی ہوتی ہے اور انہیں احساس اور اعتراف ہوتاہے کہ وہ ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہیں ۔ اُن کی عاجزی اور فروتنی ان کے عیب پر پردہ ڈال دیتی ہے بعض لوگ بے وقوف ہوتے ہیں اور انہیں اپنے آپ پر دانشور اور عبقری ہونے کا گمان ہوتاہے ، ایسے بے وقوفوں کی حالت بڑی مضحکہ خیز ہوتی ہے ۔ اللہ اس آیت میں یہ کہہ رہاہے کہ یہ نام نہاد دانشور اُن بیوقوفوں میں سے ہیں ، جنہیں یہ وقوف بھی نہیں کہ وہ بے وقوف ہیں ۔
اس ملک کے دانشوروں سے بھی جب ہم آج کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کا سقوط اللہ کا ایک دردناک عذاب ہے ، تو وہ کہتے ہیں اس میں عذاب کی کیا بات ہے ؟ قوموں کو کبھی فتح ہوتی ہے کبھی شکست ہوتی ہے :
{ بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ} [المؤمنون: 81]
’’ تاریخ گواہی دیتی ہےکہ فراستِ ایمانی سے محروم انسان ہمیشہ سے ایک جیسی باتیں کرتے رہے ہیں ‘‘۔
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ہماری غفلت اور شقاوت شدید تر ہوگئی ۔ ہم انفرادی اور اجتماعی بد اعمالیوں میں یُوں چھُوٹ ہوگئے ہیں ، جیسے ہم اللہ کی زد سے باہر ہوگئے ہوں یا جیسے اس ملک میں اللہ کا قانونِ جزاوسزا معطّل ہوگیاہو ، یہ کیفیت سخت ہلاکت آفرین ہے :
{ أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ، أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ} [الا ٔعراف: 97 - 99]
’’ بستیوں میں رہنے والوں کو کِس نے ضمانت دی ہے کہ ہمارا عذاب راتوں رات اُن پر نازل نہ ہوگا ، جب وہ بے خبر سو رہے ہوں گے ۔ کیا بستیوں میں رہنے والوں نے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ لیا ہے کہ ہمارا عذاب دن دہاڑے اُن پر نازل نہ ہوگا ، جب وہ کھیل کُود میں لگے ہوں گے ۔ کیا اللہ کی چال سے وہ محفوظ ہو بیٹھے ہیں ؟ اللہ کی چال سے اپنے آپ کو وہی لوگ محفوظ سمجھتے ہیں، جو خائب وخاسر ہیں ‘‘۔