کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 87
مشقت میں پیدا کیا ہے ‘‘۔غم،دکھ اور پریشانی کا آجانا کوئی نئی بات نہیں یہ تو اس کائنات کے افضل ترین انسانوں یعنی انبیائے کرام کو بھی آئیں۔ کائنات کے امام کو بھی ایک غم تھا جس کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کہا[فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا][ الکہف:6]’’پس اگر یہ لوگ اس بات (یعنی قرآن) پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اس غم میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے‘‘۔ کس قدر اپنی امت کا غم ہے،کہ میری پوری امت جنت میں چلی جائے ۔قرآن کی ایک آیت باربار تلاوت کرتے۔ [اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚوَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ][المائدہ:118] ’’اگر تو ان کوسزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو معاف فرما دے تو تو ُ زبردست ہے حکمت والا ہے‘‘۔ آج ہمیں دنیا کی فکر ہے کسی طرح ہماری دنیا اچھی ہو جائے،آخرت کی کوئی فکر نہیں،قبر کی کوئی فکر نہیں جہاں ہزاروں سال رہنا ہے روز محشر کی کوئی فکر نہیں جس کا ایک دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔جہنم کی کوئی فکر نہیں جس کے بارے میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آگ سے بچوخواہ ایک کھجور کا ٹکڑا ہی دے کر بچ سکتے ہو‘‘۔[1] اس تمہید کے بعد ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ دکھوں،غموں اور پریشانیوں کا علاج آخر کیا ہے؟ غم اور پریشانیوں کا علاج تو آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن و حدیث میں بڑے احسن انداز کے ساتھ بیان کردیا گیا۔ وہ انسان خوش قسمت ہے جو اس غم،دکھ اور پریشانی کو صبر اور حوصلہ کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔
[1] صحیح البخاری:کتاب الزکوٰۃ،باب اتقواالنار ولو بشق ثمرۃوالقلیل منی صدقۃ