کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 84
قلق ( اضطراب ) کہلاتاہے ۔ قلق ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو کسی کو بھی لاحق ہوتی ہے تو وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے ، نہ خود میںٹھہراؤ اور نہ ہی اپنے ماحول میں امن پاتا ہے ،بلکہ ایسے شخص میں ہمہ وقت اضطراب اور طبیعت میں کشیدگی و کھینچاؤ کی کیفیت رہتی ہے ۔ یہ تکلیف عموماََکسی غیر مانوس چیز کو دیکھنے ، اچانک حملے یا اخلاقیات سے گرے ’’جواری ، شراب نوش،دھوکے باز ‘‘ رفقاء کے ملنے اور غیر محفوظ مستقبل کا خوف دامن گیر ہونے والے شیطانی وسوسوں سے جنم لیتی ہے۔ یہ چیزیں انسان میں اندرونی کوتاہیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کی وجہ سے انسان اوران شیطانی وسوسوں کے درمیان ایک ذہنی کشمکش شروع ہو جاتی ہے جن پر شیطان کو موقع ہاتھ آتا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ،بھٹکاتا ،شکوک و شبہات اور ذہنی ،فکری و نفسیاتی ٹکراؤ پیدا کرتاہے۔ظاہر بات ہے ان قوتوں پر شیطان کو غلبہ دے دیا گیا ہے ۔ الخوف :(ڈر) بعض ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ خوف ایک ایسی کیفیت کانام ہے جس میں انسان نفسیاتی بےچینی اور اعصابی تناؤ محسوس کرتا ہے۔عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔مسلسل خوف و ہراس کی کیفیت میں رہتے ہوئے انسان سرکش ہو جاتا ہے۔ حالات سے بےگانہ ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ خوف کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ایک ایجابی و مثبت اور دوسرا سلبی و منفی کا نوعیت کا خوف۔ مثبت یہ ہے کہ اللہ کے عذاب و سزا کا خوف ہو۔ یہ ہر انسان کے لئے ضروری اور مطلوب ہے ۔بلکہ یہی وہ خوف ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ عبادت صرف اللہ کی کر نی چاہیے۔ یہ انسان کی زندگی میں رویے کی اصلاح کرتا ہے۔ فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق میں توازن بھی اسی سے ممکن ہے۔ مومنین کو اللہ تعالیٰ نے اسی صفت ِ خوف سے متصف کیا ہے۔ اور منفی نوعیت کا خوف وہ ہوتا ہے جس میں غیر اللہ سے ڈرا جائے۔یا اطاعت الہٰی میں مانع ہو یا جس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انسان اللہ کی نافرمانی مول لےبیٹھتا ہے۔جیسے جادوں گروں اور دجالین کا خوف۔