کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 78
ہو جاتی ہے۔ پس اس حدیث کی بنا پر بیت اللہ شریف سترے کے حکم سے مستثنیٰ ہو گا.[1] دوسرا موقف: یہ ہے کہ مسجد حرام میں (اگرچہ ہجوم کی وجہ سے اس میں مشکلات ہیں) بالخصوص غالباً جواز کے موقف کی وجہ سے لوگ اس کی اہمیت سے بالعموم غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں تاہم اس کے باوجود اس کا جواز محل نظر ہے۔ شرعی دلائل اس کے عدم جواز ہی کے مؤید ہیں۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں: 1… سترے کے وجوب اور اہمیت پر مبنی جتنی احادیث ہیں، وہ مطلق ہیں، وہ جس طرح کھلی فضا اور مساجد وغیرہ ہر مقام کو شامل ہیں، اسی طرح ان میں مسجد حرام (بیت اللہ) بھی شامل ہے۔ کسی حدیث سے اس کا استثنا ثابت نہیں۔ 2… مطلب بن ابی وداعہ کی جس حدیث سے مسجد حرام میں سترہ نہ رکھنے پر استدلال کیا گیا ہے اس کے ضعف کا اعتراف تو کیا گیا ہے لیکن اس سے استدلال بھی کیا گیا ہے حالانکہ وہ روایت سخت ضعیف اور ناقابل استدلال ہے[2] 3… علاوہ ازیں اگر اس روایت کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے، تب بھی اس سے استدلال جائز نہیں ہو گا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں: ’قدتقررفي الأصول أن فعلہ لایعارض القول الخاص بنا،وتلک الأوامرالسابقۃخاصۃ بالأمۃ، فلا یصلح ھذا الفعل أن یکون قرینۃ لصرفھا۔‘ ’’اصول میں یہ بات طے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل آپ کے ان قولی احکام کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا جن کا آپ نے خاص طور پر حکم دیا ہے اور سابقہ احادیث جن میں امت کو بالخصوص سترے کا حکم ہے، آپ
[1] فتاوی اہل حدیث از حافظ عبداللہ محدث روپڑی: 2/116-117، طبع اول [2] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’المنتقی‘‘ کی شرح ’’نیل الاوطار‘‘ (باب دفع المار وما علیہ من الاثم … : 3/9، طبع مصطفی البابی الحلبی، مصر۔ فتاوی الدین الخالص: 3/571،572)