کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 76
ان میں مجتہد العصر حافظ عبداللہ محدث روپڑی اور مخدومی و مربی حضرت الاستاذ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف کے فتاوی ہیں جن میں اگرچہ اسی موقف کی تائید ہے تاہم بطور احتیاط مذکورہ مقدار سے کچھ زیادہ کی رائے کا اظہار کیا ہے۔ یہ تفصیل حسب ذیل ہے: نمازی اور سترے میں فاصلہ: _نمازی اگر بغیر سترے کے نماز پڑھ رہا ہو تو گزرنے والا کتنے فاصلے پر سے نمازی کے آگے سے گزر سکتا ہے؟ _ مرفوع حدیث میں فاصلہ کی حد بندی مصرح تو میرے علم میں ثابت نہیں، البتہ’بین یدی المصلی‘ کا لفظ بظاہر یہ چاہتا ہے کہ محل سترہ سے باہر سے اگر گزر جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اگر احتیاطی طریقہ اختیار کرے تو بہتر ہے۔ (محمد علی از مرکز الاسلام، لکھوکی) مجیب لبیب نے جس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس کی شرح میں صاحب سبل السلام نے تحریر فرمایا ہے: ’والحدیث دلیل علی تحریم المرور ما بین موضع جبھتہ في سجودہ و قدمیہ[1] ہاں ایک روایت میں’رمیۃ الحجر‘ کا لفظ آیا ہے اس میں گو ضعف اور معنی کے لحاظ سے محتمل ہے۔ لیکن (احتیاطی طریقہ کے لیے) مفید ہو سکتی ہے ایسے مسائل میں کسی فریق پر تشدد سے بچنا انسب ہے۔ و اللہ اعلم (احقر محمد عطاء اللہ بھوجیانی 18ربیع الثانی 1352ھ) تبصرہ محدث روپڑی: حدیث ابو داود میں ’قذفۃ بحجر‘کا لفظ ہے یعنی پتھر پھینکنے بقدر آگے سے گزر جانے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے مگر ایک دوسری حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے جو یہ ہے: ’إذ جعلت بین یدیک مثل مؤخرۃ الرحل فلا یضرک من مر بین یدیک‘[2]
[1] سبل السلام :باب سترۃ المصلی ج1/ص 143 [2] عمدۃ القاری۔شرح صحیح البخاری:باب سترۃ الامام سترۃ من خلفہ،ج 7 صفحہ222