کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 75
اور جب ایسا ہے تو اس کو اس سے زیادہ فاصلے سے گزرنے والے کو روکنے کا حق ہی نہیں ہے۔‘‘
خلاصۂ بحث:
ان تمام اقوال سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ نمازی کو نماز پڑھتے وقت دیوار یا ستون کو سترہ بنا کر یا کسی جانور (اونٹ وغیرہ) کو بٹھا کر نماز (سنتیں وغیرہ) پڑھنی چاہیے، فرض نماز انفرادی ہو تب بھی۔ اور اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو مسجد یا غیر مسجد، ہر جگہ اپنے آگے تین ہاتھ یا مزید ایک بالشت زیادہ کے فاصلے پر سترہ رکھے اس فاصلے کے درمیان سے گزرنا ناجائز اور اس سے زیادہ فاصلے سے گزرنا جائز ہوگا۔ اور ایسا شخص گزرنے کی وعید کا مستحق نہیں ہو گا۔ (ان شاء اللہ)
حدیث’لو یعلم المار بین یدي المصلي ما ذا علیہ، لکان أن یقف أربعین خیرا لہ من أن یمر بین یدیہ‘[1]میں’بین یدیہ‘(نمازی کے آگے) کے الفاظ سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ کیونکہ ’’آگے‘‘ سے مراد نمازی کے پیروں اور سجدہ گاہ کے درمیان کا فاصلہ ہے، اس سے زیادہ فاصلہ ’’آگے‘‘ کی ذیل میں نہیں آتا۔
دیگر علمائے اہل حدیث کے فتاویٰ:
آخر میں چند دیگر کبار علمائے اہل حدیث کے فتاویٰ درج کیے جاتے ہیں:
ان میں صاحب ’’سبل السلام‘‘ اور صاحب ’’عون المعبود‘‘ کی بھی یہی رائے نقل کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں مولانا محمد علی لکھوی کا بھی فتویٰ ہے جس میں اسی موقف کی تائید ہے۔ یہ مولانا محمد علی لکھوی بھی ہمارے کبار علماء میں سے ہیں جنھیں آج کل کے نوجوان علماء شاید نہ جانتے ہوں۔ یہ مولانا محی الدین لکھوی اور مولانا معین الدین لکھوی کے والد محترم ہیں۔ پاکستان سے ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے، وہیں مستقل سکونت اختیار کی اور ایک عربی خاتون سے شادی کر لی تھی جس سے ان کے دو بیٹے حسن اور حسین ہیں۔ وہیں ان کی وفات ہوئی اور اسی سرزمین مقدس ہی میں آسودۂ خواب ہیں، رحمہ اللہ تعالی۔
[1] البخاري (510) ،المسلم (507)