کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 74
حافظ ابن حزم کی رائے بھی یہی ہے، چنانچہ محلیٰ میں ہے: ’من مر أمام المصلی و جعل بینہ و بینہ اکثر من ثلاثۃ اذرع فلا إثم علی المار و لیس علی المصلي منعہ، فان مر أمامہ علی ثلاثۃ أذرع فاقل فھو آثم إلا أن تکون سترۃ المصلی أقل من ثلاثۃ أذرع فلا حرج علی المار في المرور وراء ھا أو علیھا…لم نجد في البعد عن السترۃ أکثر من ھذا، فکان ھذا حد البیان في أقصی الواجب من ذلک۔[1] ’’جو اپنے اور نمازی کے درمیان تین ہاتھ سے زیادہ کا فاصلہ رکھ کر گزرے تو ایسا شخص گناہ گار نہیں ہوگا اور نہ ہی اسے روکنا نمازی کے لیے ضروری ہوگا۔ اگر تین ہاتھ کے فاصلے سے یا اس سے کم فاصلے سے کوئی گزرے تو گزرنے والا گناہ گار ہوگا، الاّ کہ نمازی کا سترہ ہی تین ہاتھ سے کم پر ہو تو اس صورت میں سترے کی دوسری جانب یا اس کے اوپر سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا… سترے اور نمازی کے درمیانی فاصلے کی حد اس سے زیادہ ہمارے علم میں نہیں ہے، اس لیے سترے کا فاصلہ زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ تک ہونا چاہیے۔‘‘ شیخ ابن عثیمین اس مسئلے میں مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’و أقرب الأقوال: ما بین رجلین و موضع سجودہ، و ذلک لأن المصلي لا یستحق أکثر مما یحتاج إلیہ في صلاتہ، فلیس لہ الحق أن یمنع الناس مما لا یحتاجہ۔‘[2] ’’تمام اقوال میں صحت کے زیادہ قریب قول یہ ہے کہ سترہ نمازی کے پیروں اور سجدہ گاہ کے فاصلے پر ہو، کیونکہ اتنے فاصلے سے ہی وہ ہاتھ سے گزرنے والے کو روک سکتا ہے، اور اس سے زیادہ فاصلے سے تو روکنا ممکن ہی نہیں ہے۔ تو نمازی کو کس طرح اس کا پابند بنایا جا سکتا ہے جو اس کے امکان ہی میں نہیں ہے۔
[1] { FN 677 }بحوالہ فتاوی الدین الخالص: 3/565 [2] الشرح الممتع: 3/340