کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 72
تطبیق دی ہے کہ اس کی کم از کم مقدار بکری کے گزرنے کے برابر اور زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ ہے۔ بعض اہل علم نے اس طرح بھی دونوں حدیثوں میں تطبیق دی ہے کہ پہلی کیفیت قیام اور قعدے کے وقت ہے اور دوسری رکوع و سجود کے وقت ہے … سترے کے قریب ہونے کا حکم بھی حدیث میں مروی ہے جس میں اس کی حکمت بھی بیان ہوئی ہے کہ ’’جب تم میں سے کوئی ایک نماز پڑھے تو سترے کے قریب ہو جائے، کہیں شیطان اس پر اس کی نماز کو قطع نہ کر دے۔‘‘ اور یہ حکم ہے کہ اگر کوئی نماز اور اس کے سترے کے درمیان سے گزرے تو نمازی اس کو جس طرح ہو سکے روکے۔ اس روایت کا پورا متن نقل کر کے حضرت غازی پوری فرماتے ہیں: ’’ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نمازی کی نماز کی جگہ کی حد اُس کے کھڑے ہونے کی جگہ سے سجدہ گاہ تک ہے، اس کے درمیان سے گزرنا منع ہے اور اس کے آگے سے درست ہے۔‘‘[1] یہ مجموعہ فتاویٰ آج تک قلمی اور بعض کتب خانوں میں محفوظ تھا، اللہ بھلا کرے علمائے اہل حدیث کے پروانے، احیائے مآثر سلف کے جذبہ صادقہ سے سرشار جناب عارف جاوید محمدی (کویت) اور ان کے محترم رفقائے گرامی کا کہ جن کی مساعی حسنہ سے یہ دُرِّ نایاب بھارت سے پاکستان پہنچا اور انھی حضرات گرامی قدر کے تعاون سے ابھی حال ہی میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر اہل علم اور قدر دانوں کے ہاتھوںمیں پہنچا۔ حافظ شاہد محمود فاضل مدینہ یونیورسٹی کی مساعی بھی قابل تحسین ہیں جو کویت کے ریگستانوں کے بنے ہوئے خاکوں میں رنگ روغن بھرنے میں شب و روز مصروف ہیں۔ حفظھم اللہ تعالٰی و شکر مساعیھم و بارک في جھودھم،آمین۔ یہ چند سطور تو بے اختیار ان کی مخلصانہ خدمات جلیلہ کے اعتراف میں نوک قلم پر آ گئی ہیں، ورنہ گفتگو تو سترے کے موضوع پر ہو رہی تھی۔ گزشتہ رائے گویا ایک صدی قبل کے اہل حدیث مفتی، محقق اور عالم کا نتیجۂ تحقیق ہے۔
[1] مجموعہ فتاوی استاذ الاساتذہ حافظ محمد عبداللہ محدث غازی پوری، متوفی 1337ھ، ص: 206