کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 71
تاہم اگر یہ روایت سنداً صحیح ہوتی تو ایک اوسط درجے کی مسافت کو حد قراردیا جا سکتا تھا جیسا کہ بعض علماء نے بطور احتیاط اس مسافت کو بطور سترہ قرار دیا بھی ہے۔ [1]
تیسرا موقف یہ ہے کہ نماز کی جو حد ہے، یعنی جہاں سترہ قائم کرنے کا حکم ہے، اس کے آگے سے گزر سکتا ہے، اس کے اندر سے گزرنا منع ہے۔ (فتاویٰ غازی پوری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے جو نیزہ بطور سترہ رکھا گیا، اس کے آگے سے لوگ اور جانور گزرتے تھے۔[2]حافظ عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سترہ قائم کرنے کی جگہ سجدہ گاہ کے آگے ہے جو قریب ڈھائی تین ہاتھ کے ہے۔‘‘
حافظ صاحب دو اور روایات سے استدلال کرتے ہیں:
1… ’’نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھماجب کعبے کے اندر داخل ہوتے تو سامنے کی دیوار تقریباً تین ہاتھ رہ جاتی تو نماز پڑھتے تھے۔ اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے جس کے متعلق بلال نے انھیں بتایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں نماز پڑھی تھی۔‘‘ [3]
2… ’’سہل بن سعد فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے نماز اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزرنے کے برابر جگہ ہوتی تھی۔‘‘ [4]
اس کے بعد فتح الباری کے حوالے سے حافظ صاحب،حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ
’’ابن بطال نے کہا ہے کہ یہ وہ کم از کم جگہ ہے جو نمازی اور سترے کے درمیان ہونی چاہیے یعنی بکری کے گزرنے کے برابر۔ ایک قول کے مطابق اس کی کم از کم مقدار تین ہاتھ ہے … امام داودی نے اس طرح
[1] فتاوی اہل حدیث از حافظ عبداللہ محدث روپڑی: 2/116، طبع اول
[2] صحیح البخاری، حدیث: 369
[3] صحیح البخاری، حدیث: 484
[4] صحیح البخاری، حدیث: 474