کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 70
آدمی کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔
ایک ضروری وضاحت:
ایک حدیث میں ہے:’ لا یقطع الصلاۃ شیء‘ ’’نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی۔‘‘[1]
اس حدیث کی صحت میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک یہ حسن درجے کی ہے۔ ان کے نزدیک اس عموم سے مذکورہ اشیاء (گدھا، عورت، سیاہ کتا) مستثنیٰ ہوں گی، یعنی ان کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جائے گی۔ تاہم ان کے علاوہ کسی اور چیز سے نماز نہیں ٹوٹے گی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک دونوں روایات ضعیف ہیں، اس لیے مذکورہ اشیاء کے استثنا کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
اگر سترہ نہ ہو تو کتنے فاصلے سے گزرنا جائز ہو گا؟
اس میں تین موقف ہیں:
بعض حضرات اس کی کوئی حد نہیں بتلاتے اور کہتے ہیں کہ کتنا بھی زیادہ فاصلہ ہو، نمازی کے آگے سے گزرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اس موقف میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔
دوسرا موقف ایک ضعیف حدیث پر مبنی ہے جو سنن ابی داود میں ہے، اس میں ہے:
’’جب تم میں سے کوئی شخص بغیر سترے کے نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے آگے سے کتے، گدھے، خنزیر، یہودی، مجوسی اور عورت کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جائے گی۔ ہاں اگروہ پتھر پھینکنے کے برابر فاصلے سے زیادہ فاصلے سے گزریں تو نماز نہیں ٹوٹے گی (اتنا فاصلہ اس کو کفایت کر جائے گا)۔‘‘[2]
یہ حدیث بھی قابل استدلال نہیں، کیونکہ ضعیف ہے۔ علاوہ ازیں پتھر پھینکنے کی تفصیل مجہول ہے، پتھر کس طرح پھینکنا ہے؟ پھر پھینکنے کی مقدار اور مسافت میں بھی فرق ہو گا، کوئی زیادہ زور سے پھینکے گا تو اس کا فاصلہ دوسرے پھینکنے والے سے زیادہ ہی ہو گا۔ اس کی قطعی مسافت کا فیصلہ ناممکن ہے۔
[1] سنن ابی داود، حدیث: 719-720
[2] ضعیف سنن أبي داود للألبانی، رقم الحدیث: 137-704، ص: 65-66، طبع 1991ء