کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 63
کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا اے ابا درداء میں آپ کے پاس مدینہ منورہ سے تشریف لایا ہوں ایک حدیث سننے کیلئے جس کی مجھے خبر ملی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں میں اس کے علاوہ کسی اور مقصد کیلئے نہیں آیاتو ابو درداء فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ:’من سلك طريقًا يطلب فيه علمًا، سلك الله به طريقًا من طرق الجنة، وإن الملائكة لتضع أجنحتها رضًا لطالب العلم‘[1]
ترجمہ :’’میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص طلب علم کے لئے کسی راستے میں چلتا ہے اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے اور فرشتے اس طالب علم کی خوشنودی کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں ۔۔۔‘‘
خطیب بغدادی سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی کے طریق سے نقل کرتے ہیں انہوں نے فرمایا:میں نے ابا یحیٰ زکریا الساجی سے سنا وہ کہہ رہے تھ کہ ’’ہم بصرہ کی گلیوں میں کسی ایک محدث کے گھرکی طرف جا رہے تھے ۔راستے میں ہم تیز تیز چل رہے تھے ۔ہمارے ساتھ ایک مسخرہ قسم کا( ماجن) شخص بھی تھا جو غیر دیندار تھا تھا وہ ازراہ مذاق کہنے لگا کہ ’’ اپنے پاؤں کو فرشتوں کے پروں سے اٹھا کر چلو کہیں انہیں توڑ نہ دو !! فرماتے ہیں یہ کہنا تھا کہ وہ شخص وہیں اکڑ گیا اپنا ایک قدم آگے نہ اٹھا سکا یہاں تک کہ اس کی ٹانگیں سوکھ(فالج زدہ ہو)گئیں اور وہ زمین پر گر پڑا ‘‘۔[2]
حافظ عبد القادر الرہاوی بیان کرتے ہیں کہ ’’اس حکایت کی سند ایسی ہے جیسا کسی نے یہ چیز اپنے ہاتھوں سے لی ، یا اپنی آنکھوں سے دیکھی کیونکہ اس کے راوی اعلام ہیں اور اس کوبیان کرنے والا امام( فی علم الحدیث ) ہے ‘[3]
[1] مسندأحمد (5/196) حدیث:(21763)، الترمذي،حدیث: (2682)، وأبو داود،حدیث:(3643)۔
[2] الرحلة في طلب الحديث للخطیب البغدادی(ص: 85) مجموع رسائل الحافظ ابن رجب الحنبلي(1/26).
[3] مفتاح دار السعادة ومنشور ولاية العلم والإرادة (1/ 64)