کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 59
آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقین کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے‘‘۔ اور اگر آپ اس شخص کی باتوں سے محظوظ ہوئے تو گناہ میں برابر کے شریک ہوں گے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :[إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ ]۔(ورنہ) تم بھی انہی جیسے ہو۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ : کیا جو شخص داڑھی یا کپڑے کےٹخنے سے اونچا رکھنے کا مذاق اڑاتاہے کیا یہ فعل کفر ہے ؟ آپ نے جواباً فرمایا:’’اس کا حکم نوعیت ونیت کے حساب سے مختلف ہے ۔ اس کا مقصد اگر اس سے دین کا مذاق اڑانا تھا تو بلا شک وریب یہ ارتداد ہے فرمان باری تعالیٰ ہے :[ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ . لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ] ترجمہ :’’ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ۔ تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بےایمان ہوگئے ‘‘۔ اور اگر اس کا مقصد محض اس شخص کا مذاق اڑانا تھا کہ وہ داڑھی رکھ کر اور سنت رسول پر عمل کرکے بھی دیگر منکرات وبرائیوں سے خود کو نہیں بچا رہا ، تو اس شخص کا مقصد دین کا مذاق اڑانا نہیں بلکہ دین کی چند جزءیات پر سختی سے کاربندہونا اور چند میں انتہائی کوتاہی کرنے کی وجہ سے اس شخص کو مذاق کا نشانہ بنانا تھا تو یہ ارتداد نہیں بلکہ اس کا حکم فسق شمار ہوگا ۔ پنجم : استہزا ء چاہے قصداً ہو یا ازراہ مذاق وتفنن دونوںصورتوں میں کفریہ عملہے ۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتےہیں : ’’ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاق کو بطور عذر قبول نہیں کیا بلکہ ایسا شخص سزا کا سب سے زیادہ حقدار ہے ۔کیا آپ نے یہ ملاحظہ نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجبوری