کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 58
الْعُيُوبِ وَالنَّقَائِضِ ، عَلَى وَجْهٍ يُضْحَكُ مِنْهُ ، وَقَدْ يَكُونُ ذَلِكَ بِالْمُحَاكَاةِ فِي الْقَوْلِ وَالْفِعْلِ ، وَقَدْ يَكُونُ بِالْإِشَارَةِ وَالْإِيمَاءِ ][1]
’’ سخریہ واستہزاء سے مراد اتضحیک ، استخفاف اور تحقیر ہے ۔ نیزعیب ونقائص اس انداز سے بیان کرنا کہ جس سے مذاق اڑے ہنسا جائے ،یہ تضحیک وتحقیر کبھی قول وفعل کی شکل میں ہوتی ہے ۔ اور کبھی اشارہ وکنایہ کی صورت میں بھی ‘‘ ۔
سوم : اگر کوئی قول وفعل استخفاف ، تحقیراور تنقیص وتمسخر پر دلالت نہیں کرتا تو یہ استہزاء ایسا نہیں جوکہ انسان کو ملتِ اسلامیہ سے خارج کردے ۔
لہٰذا اس سے یہ صورت واضح ہوئی کہ استہزاء کبھی معصیت اور گناہ کے زمرے میں آتاہے اور کفر کے درجہ کو نہیں پہنچتا جیساکہ کوئی شخص کسی دیندار شخص کا مذاق اس کی ذاتی حیثیت سے اڑائے نہ کہ اس کی دینداری کی وجہ سے ۔
چہارم : ایک مسلمان کی بحیثیت مسلمان ایک بہت بڑی واجبی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اگر کسی شخص کو دین پر طعنہ زنی کرتےاور ٹھٹھ ومذاق بناتے پائے تو اس شخص کی مذمت کی جائے اور اگر یہ چیز اس کی طاقت وسعت سے باہر ہے یا مسلسل تنبیہ اور اصلاح کے باوجود مذاق کرنے والا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے تو اس شخص کو چاہئے کہ وہ جگہ چھوڑ دے جس جگہ وہ مذاق کرنے والا موجود ہو۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :[ وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا ، فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ، إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ،إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا][النساء:140]
ترجمہ :’’اور اللہ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی
[1] احیاء علوم الدین ۔3؍ 131بحوالہ الاستہزاء بالدین أحکامہ وآثارہ ۔ ص 79