کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 57
اس کہاوت میں کیسے اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ رسول جن کا شمار’اولوالعزم مِنَ الرسل‘ میں ہوتا ہے انہیں موت سے خائف اور جان بچاتے بھاگنے کا تصور دیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ تمام انبیاء ورسولوں کے تقدس کا لحاظ ہرمسلمان کا فرض ہے ۔ استہزاء اور مذاق کرنے کا شرعی حکم استہزاء ومذاق کے حکم کے حوالےسے چند بنیادی امور ملحوظ خاطر رکھنےضروری ہیں : اول: دین سے مذاق ایک بہت ہی بڑا جرم اوراللہ تعالیٰ کی حدود کی پامالی ہے ۔اور یہ عمل اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کو ایذا دینے کے مترادف ہے ۔ جس کی سزا بہت سخت متعین ہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :{إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا } [الا ٔحزاب: 57] ترجمہ :’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے ‘‘۔ امام ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’نصّ شرعی سے یہ امر ثابت ہے کہ جس نے بھی اللہ تعالیٰ سے ، یا فرشتوں میں سے کسی فرشتے ، یا انبیاء میں سے کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کریم کی کسی آیت یا فرائضِ دین میں سے کسی فریضہ کا مذاق اڑایا استہزا اور تمسخر کیا بعد اس کے کہ حجت ودلیل اس تک پہنچ چکی تھی تو وہ شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ‘‘۔ [1] دوم : دین سے مذاق میں ہر وہ قول وفعل اور اشارہ شامل ہے جس سے دین پر طعنہ زنی ہو ، اس کااستخفاف اور تحقیر کی جائے ۔ جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’وَمَعْنَى السُّخْرِيَةِ:الِاسْتِهَانَةُ،وَالتَّحْقِيرُ،وَالتَّنْبِيهُ عَلَى
[1] الفصل في الملل والأهواء والنحل 3/142