کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 56
مگر اردو محاروے میں اسے گالی اور دُشنام کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتاہے. لہٰذا ’’صلواتیں سُنانا‘‘ کا مطلب ٹھہرا ’’گالیاں دینا، بُرا بھلا کہنا‘‘۔ ایک اسلامی شعیرہ کے الفاظ کو کن گمراہ کن غلیظ معانی کیلئے استعمال کیا جاتاہے۔ والعیاذ باللہ نمازیں بخشوانے گئے اور روزے گلے پڑ ے: (کہاوت) مفہوم’’ایک کام سے جان چھُڑانے گئے تھے اور دوسری مصیبت گلے پڑ گئی ۔‘‘ اِسلام کی بُنیادی عبادات کے متعلق ایسا گُستاخانہ تصور اورطرز تکلّم بہت بڑی جسارت کے زُمرے میں آتا ہے، جو ہمارے دین کے ان دو ارکان کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ خُدا واسطے کا بَیر: (محاورہ) جس کا مطلب کُچھ اس طرح ہے کہ جب کوئی شخص کِسی سے خواہ مخواہ رنجیدۂ خاطر ہو، جس کی کوئی ظاہری اور معقول وجہ بھی نہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں کو فلاں کے ساتھ تو خُدا واسطے کا بَیر ہے۔‘‘ یعنی شریعت کی اصطلاح حب فی اللہ اور البغض فی اللہ کو کس طرح باہمی چپقلش اور عناد میں بطور محاورہ استعمال کیا گیا اور یہ احساس بھی نہ رہا کہ اللہ کیلئے بیر کون رکھتاہے اور کس لئے رکھا جاتاہے اور اس کے فوائد وثمرات کیا ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کو دین حنیف کی سمجھ عطا فرمائے ۔ مُوسیٰ بھاگا گور سے اور آگے گور کھڑی: (کہاوت) ’’ یعنی موسیٰ موت سے بھاگے اور موت آگے کھڑی تھی ‘‘۔ ملاحظہ کیجئے کہ سیدنا مُوسیٰ علیہ السلام کو کیسے ظاہر کیا گیا کہ وہ موت سے اتنے خوف زدہ اور لرزہ براندام تھے کہ اس فنا ہو جانے والی دُنیا میں زندہ رہنے کی خاطر موت سے چھُپتے اور بھاگتے پھرے مگر موت نے پھر بھی اُنھیں آلیا؟ [1]
[1] ان امثال کیلئے اردو پریس Cretech.netسے استفادہ کیا گیاہے۔