کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 55
’’ میں نے جنت جیسی عظیم نعمت نہیں دیکھی جسے حاصل کرنے والا سویارہے ‘‘۔ اس نعمت کو احمقوں کی طرف منسوب کرنا کتنی بڑی جسارت ہے ۔ ایسا مقام جو انبیاء ، صدیقین ، شہداء ، صالحین کا ٹھکانہ ہے ۔ اس سے یہ پیغام ملتاہے کہ اللہ کی جنت کے علاوہ احمقوں کیلئے یا احمقوںکی بھی کوئی جنت ہے ۔ ہر مسلمان کو یہ چیز بخوبی سمجھ لینی چاہئے کہ جنت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ۔ اور اس کے حقدار اللہ کے نیک بندے ہیں ۔جنت جیسی عظیم نعمت کو احمقوں سے منسوب کرنا بہت بڑی حماقت اور دین سے بہت بڑا مذاق ہے ۔ اعاذنا اللہ منہ ۔ لکھے مُوسیٰ پڑھے خُدا (کہاوت) یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی شخص کی لکھی ہوئی خراب تحریرصاف پڑھی نہ جا رہی ہو۔ اب پتہ نہیں نالائق لوگوں کی خراب لکھائی کا تعلّق سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جوڑنے کا مطلب اور مقصد کیا تھا؟ وضاحت : یہ کہاوت جس طرح بولی اور لکھی جاتی ہے ایسے نہیں بلکہ اصل کہاوت اس طرح ہے: ’’ لکھے مُو(بال) سا، پڑھے خود آ۔‘‘یعنی جو شخص بال کی طرح باریک لکھتا ہے کہ دُوسروں کے لیے اسے پڑھنا دُشوار ہو تو اسے خود ہی آکر پڑھے، کوئی اور تو اسے پڑھنے اور سمجھنے سے رہا۔ تعجب ہے کہ اُردو کی بڑی بڑی لُغات اور قواعد کی کُتب میں یہ کہاوت عنوان کے مطابق غلط طور پر لکھی ہوئی پائی گئی ہے، جس سے آپ علم کی نشرواشاعت کے ان نام نہاد مدعیوں اور ذمہ داروں کی علمی سطح کا اندازہ بخوبی کر سکتے ہیں۔ صلوا تیں سُنانا: (محاورہ) صلاۃ کا معنی اور مفہوم ہے: برکتیں اور رحمتیں، جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہوں۔ جس کی جمع صلوات ہے اور اس کے معانی درود، دُعا اور نمازکے بھی ہیں)