کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 52
الغرض استہزا وتمسخر کا مطلو ب ومفہوم یہ ہے کہ :ـاظھار كل عقيدة،أو فعل،أوقول قصدا،يدلّ على الطعن في الدين،والاستخفاف به،والاستھانة بالله تبارك وتعالى ورسله عليھم الصلاة والسلام.[1] ’’ کوئی بھی ایسا عقیدہ اپنانا ، یا ایسےقول وفعل کا اظہار کرنا جس میں دین پر طعنہ زنی ہو ،اس کا استخفاف ہو ، اور اللہ تبارک وتعالیٰ یا اس کے رسولوں علیہم الصلاۃ والتسلیم کی تحقیر کی گئی ہو استہزاء کہلاتاہے ‘‘۔ نوٹ :مذکورہ بالا تعریف میں قصداََ کا لفظ آیا ہے جس پر جمہور علماء معترض ہیں بلکہ استخفاف اور تحقیر چاہے قصداً ہو یا مذاقاً دونوں صورتوں میں کفریہ فعل ہے ۔ شیخ سلیمان بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’جس شخص نے بھی اللہ ، یا اس کی کتاب ، یا اس کے رسول یا اس کے دین کا مذاق اڑایا چاہے اس کا یہ فعل ازراہ تفنن اور مذاق ہی ہو اور اس نے استہزاء کا قصد نہ کیا ہو تو اہل علم کا اجماع ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا ‘‘۔[2] استہزاء کی جملہ صورتیں : شعائر اسلام کو ھدف تنقید اور تنقیص بنانا: افسوس ناک امر یہ ہے جو کام یہودیوں اور منافقوںکا ہواکرتاتھااور ہے وہی کام خودکو مسلمان کہلانے والوں میں آتے جارہے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، فرشتے، جنت، حوریں ، دوزخ، اللہ کے عذاب، قرآنی آیات، احادیثِ نبویہ، دینی کتابوں ، دینی شَعائر، عمامہ، داڑھی، مسجد، مدرسے، دیندار آدمی، دینی لباس، دینی جملے، مقدس کلمات الغرض وہ کونسی مذہبی چیز ہے کہ جس کا اِس زمانے میں کھلے عام فلموں ، ڈراموں ، خصوصاً مزاحیہ ڈراموں ، عام بول چال، دوستوں کی مجلسوں ، دنیاوی تقریروں ، ہنسی مذاق کی نشستوں
[1] فتح العلام بشرح مرشد الأنام للجردانی ج4 ؍ ص ،538بحوالہ الاستھزاء بالدین أحکامہ وآثارہ ۔ ص 79 [2] تسیر العزیز الحمید ص 617