کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 47
جو بدقسمتی سے یہاں کئی ایک طبقوں کے ہاں بری طرح راسخ ہوگیا ہے۔ جب کہ متقین و زہاد کے سردار امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی زہد و تقویٰ کا اعلیٰ ترین معیار تھا ۔اس کی مثال ایک حدیث سے بخوبی واضح ہوسکتی ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’اصحاب النبی رضوان اللہ تعالیٰ عنھم میں سے ایک جماعت نے ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھریلو اعمال کے بارے میں سوال کیا تو ان میں سے بعض نے کہا میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا اور بعض نے کہا کہ میں گوشت نہیں کھاؤں گا اور بعض نے کہا کہ میں بستر پر نیند نہیں کروں گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا قوم کو کیا ہوگیا ہے ؟کہ انہوں نے اس اس طرح گفتگو کی ہے حالانکہ میں نماز پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں‘‘۔[1]اس حدیث میں ہمیں تمام وہ صورتیں جن سے دنیا سے بے رغبتی یا گوشہ نشینی اختیار کرنے کا دروازہ کھلتا ہو انہیں سرے سے ہی رد فرمادیا اور واضح اصول فرمادئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی زہد و تقویٰ کا عملی نمونہ تھی اللہ لیٰ نے بھی اسے بہترین نمونہ قرار دیا ’’ {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا } [الا ٔحزاب: 21] ترجمہ :’’ بلاشبہ یقیناََ تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو‘‘۔ اسی طرح حلال کمانا، اللہ کے پاکیزہ رزق کی تلاش میں نکلنا اور اس کےلیے صبح سے شام کردینی پڑے تو کردینا، اور اپنی اس کمائی سے والدین، اہل خانہ وغیرہ کے حقوق پورے کرنا، مقدور بھر اس سے صدقہ کرنا، دنیا میں اس مال سےحسب استطاعت، جہاد اور اللہ تعالیٰ کےدین کے مشن کو تقویت دینا، اور اپنی اس مجموعی روش سے اپنی امت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا اور اہل اسلام کو ایک بیروزگار اور غیر پیداوار معاشرہ نہ رہنے
[1] صحیح بخاری: باب الترغیب فی النکاح