کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 46
قیادت کا گھر ہے جو سب کو کھلانے کے بعد کھانا گوارا کرتی ہے... ادھر جاہلوں نے سمجھ لیا کہ یہ مال دشمنی اور دنیا بیزاری ہے! اور یہ کہ اہلِ اسلام کا حصولِ رزقِ حلال کے محاذ پر جُتنا اور معیشت پر حاوی ہونا توکل اورزہد کے منافی ہے اورآخرت سے بے رغبتی!
سیدناعبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ،زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ،یہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، یہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، یہ خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنہا،یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ،یہ عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور یہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور لا تعداد صحابہ رضی اللہ عنھم ہیں جو مارکیٹوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ مال ودولت کی ریل پیل ہے مگر دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور زبان پرخیال ہے توصرف آخرت کا۔[اللھم لاعیش الاعیش الآخرة،فاغفرللأنصاروالمھاجرة‘![[1]
ترجمہ : ’’اے اللہ! اصل زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہےاے اللہ تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے‘‘۔
امام احمد رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: کیا آدمی مالدار ہوکر زاہد ہوسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں، اگر مال کا بڑھنا اس کو خوشی سے بے قابو نہیں کرتا اور مال کا گھٹنا اس کےلیے حسرت کا باعث نہیں بنتا۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زہد یہ نہیں کہ آدمی مال کو ہاتھ لگانے سے پرہیز کرے یا حلال اشیاءکو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لے۔ زہد یہ ہے کہ جو خیر اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کا وثوق تمہیں زیادہ ہو بہ نسبت اس چیز کے جو تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ کہ مصیبت میں بھی تم اپنے آپ کواللہ کی محبت وقربت کے احساس میں اسی طرح سرشار پاؤ جیسا کہ مصیبت نہ ہونے کے وقت۔ اور یہ کہ تمہاری ستائش کرنے والا شخص اور تمہاری مذمت کرنے والا شخص ہر دو تمہاری نظر میں ایک برابر ہوجائیں۔
خلاصہ کلام
یہ کہ زہد و تقویٰ حلال اور پاکیزہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرنے کا نام نہیں ۔ حلال کمائی میں بے رغبتی پیدا کر لینا اور کاروبارِ دنیا کوناجائزسمجھنا یا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اعراض کرنا زہد کا ایک نہایت غلط تصور ہے
[1] سنن ابن ماجۃ ،باب این یجوز بناء المسجد