کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 44
اپناخاندان،اپناقبیلہ،اپنی برادری،اوراپنی یونین دیکھتے ہیں۔آج ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم یہ دیکھیں کہ حق کیاہے ناحق کیاہے بس ہم دوڑپڑتے ہیں کہ ہمارے قبیلہ کا مطالبہ کیاہے؟ہماری یونین کی فرمائش کی لسٹ کیاہے؟۔وکلا یہ دیکھنے کی قطعی زحمت گوارانہیں کرتے کہ ان کا موکل صحیح ہے یاغلط ،مقدمہ کی پیروی جوکی جارہی ہے وہ صحیح ہے یاغلط؟ان کاہرحال میں ایک ہی مطمع نظررہتاہے کہ ہم نے فیس لی ہےاوراب ہمیںاپنے موکل کو بری کراناہے خواہ وہ قاتل ہو،زانی ہو،ڈاکو ہو،چوراورلیٹراہو،ملک اورملت سے بغاوت کرنے والاہو۔دلیل بس وہی ایک گھسی پٹی ہوتی ہے کہ عدالت کے فیصلے سے پہلے کوئی مجرم نہیں ہوتا۔اللہ کے بندےیاقرینہ حال سے بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا۔کہاجاتاہے کہ ڈاکٹر اوروکیلوں سے کچھ نہیں چھپایاجاتا۔توکیاجب کوئی مجرم کسی وکیل کے پاس آکر اپنے کارنامے سناکر اس سے اس کا طالب ہوتاہے کہ وہ اس کا مقدمہ لڑے اوراس کوبری کرائے کیاتب بھی اس کوکچھ معلوم نہیں ہوتا۔معلوم سب ہوتاہے لیکن ہم نے دنیاکوآخرت پر ترجیح دے رکھی ہے۔ زہد و ورع کی بابت ایک غلط فہمی کا ازالہ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ زہدو تقویٰ کا مطلب ہے کسی بھی طرح دنیا سے بیزاری کا نام نہیں، جیسا کہ بعض لوگوں میں ایک تصور پایا جاتاہے ۔ ہمیں زہد کی وہ صورت اپنانی اور بتانی چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اختیار کی کیونکہ بالاجماع ان سے زیادہ زاہد کوئی نہیں ہوسکتا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے تو وہ خطا پر ہے اسے اپنی اصلاح کرنی چاہئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ہمیں ایسے صحابہ رضی اللہ عنھم بھی نظر آتے ہیں جو بمشکل دو لبادوں میں ملبوس، صفہ پر بیٹھے، کار وبارِ زندگی میں بھی کچھ خاص سرگرم نہیں؛ بلکہ مسجد، علم اور جہاد وغیرہ کی سرگرمیوں تک ہی محدود ہیں اور زیادہ تر ان کی گزر صدقات وغیرہ پر ہی ہوتی ہے۔ جبکہ انہی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم ایسے ایسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کو بھی دیکھتے ہیں جو کروڑوں اربوں پتی ہیں اور کاروبارِ زندگی میں بھی خوب سرگرم،