کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 43
ہورہاہے اورکل قیامت کے دن فردجرم پیش کردی جائے گی اوراس وقت کی ندامت کسی کام نہ آئے گی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا } [الا ٔسراء: 36] ترجمہ: ’’بیشک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا‘‘۔ 7امام ابن حازم کی زوجہ نے ان سے کہا کہ سردی کا موسم آچکا ہے اور ہمیں لازمی طور پر گرم کپڑوں، کھانا اور لکڑیوں کی ضرورت ہے تو آپ نے جواب دیا کہ یہ تو بہت لازمی ہیں مگر ان سے بھی زیادہ اہم موت کی تیاری اور مرنے کے بعد کی زندگی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا اور جنت وجہنم کی فکر ہے۔[1] ذرا غور کریں کہ کیسے امام ابو حازم نے احسن انداز میں اپنی بیوی کی طلب کو بھی اہمیت دی مگر ان کی اہم مقصد کی طرف بھی توجہ دلائی اور یہی احسن طریقہ ہے اپنے گھروں کی اصلاح کا ۔ علامہ ابن عابدین نے 'ردالمحتارعلی الدرالمختار‘ میں امام ابویوسف کے تذکرہ میں لکھاہے کہ جب ان کے انتقال کا وقت قریب آیاتورونے لگے ،کسی نے عرض کیا کہ آپ کیوں رورہے ہیں حالانکہ آپ نے اس طرح کے بے لاگ اورعدل وانصاف سے فیصلے کئے۔فرمایا میں اس لئے رورہاہوں کہ ایک مرتبہ میں نے عدل کا خیال نہیں رکھا،معاملہ ہارون رشید اورایک نصرانی کاتھا ۔اس نصرانی نے ہارون رشید پر دعویٰ دائر کیاتھامیں نے باوجود اس کے کہ ہارون رشید کے خلاف فیصلہ کیاتھا لیکن میرے دل میں چاہت تھی کہ ہارون رشید صحیح نکلے اورنصرانی کادعویٰ غلط ہو۔ [2] کیاامام ابویوسف اپنے وقت کی سب سے بڑی سلطنت کے قاضی القضاۃکے اس واقعہ میں ہمارے لئے کچھ اثرپذیر ی ہے۔آج ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو حق اورناحق کو دیکھے بغیر صرف اپنے رشتہ دار،
[1] إحياء علوم الدين، بيان فضيلة الزهد13/2449 [2] لقضاء فی الاسلام.ص25