کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 41
خیرخواہی کاتقاضاہے۔کیاآج ہم اس کے بارے میں کچھ سوچتے ہیں؟ 4بعض خلفاء کے بارے میں آتا ہے کہ وہ علمائے کرام کوتحائف بھیجتے تو وہ قبول کرلیتےایک مرتبہ فضیل بن عیاض کو دس ہزار دینار بھیجے تو انہوں نے قبول نہیں کئے تو ان کے بیٹوں نے کہا کو قبول کرلیں آپ سے پہلے فقہا بھی قبول کرتے رہے ہیں آپ محتاج بھی ہیں تو فضیل بن عیاض رونے لگے اور کہا کہ کیا تم جانتے ہو کہ تمہاری اور میری مثال کیا ہے ؟ہماری مثال ا س قوم کی سی ہے جس کی ایک گائے تھی اور وہ اس سے ہل چلاتے تھے جب وہ بوڑھی و بیمار ہوگئی تو اسے ذبح کردیا تاکہ اس کی کھال سے فائدہ اٹھا سکیں تم بھی یہی چاہتے ہو کہ تم مجھے بڑھاپے میں ذبح کردو، فضیل کو ذبح کرنے سے بہت بہتر ہے کہ بھوکے رہو(مرجاؤ)۔ [1] اللہ اکبر ! فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نےکس طرح ہر قسم کی خوش آمد اور اس کے شبہ سے بھی بچنے کی تلقین کی اور اس کھانے سے موت کو فوقیت دی جس رزق سے انسان کی آخرت میں مشکلات و مصائب پید اہوں ۔ 5حافظ ذکی الدین عبدالعظیم المنذری جن کی کتاب الترغیب والترہیب بہت مشہور ومعروف ہے ان کے حالات میںیہ واقعہ ملتا ہے : میں نے ایک مرتبہ اپنے والد سے سناوہ حافظ دمیاطی کے واسطہ سے نقل کررہے تھے کہ ایک مرتبہ وہ (حافظ منذری)حمام سے نکلے ،گرمی اتنی سخت تھی کہ قدم بڑھانے کی ہمت نہ رہی چنانچہ راستے میں ہی ایک دکان کے قریب لیٹ گئے۔حافظ دمیاطی نے عرض کیا ،آپ یہاں دھوپ میں کیوں لیٹے ہیں میں آپ کو دکان کے چبوترے پر لے چلتاہوں وہاں آرام سے بیٹھئے۔(دکان اس وقت بند تھی )شیخ منذری نے فرمایا حالانکہ ان کو گرمی سے سخت تکلیف ہورہی تھی ،دکان کی مالک کی اجازت کے بغیر میں کیسے چبوترے پر بیٹھ جاؤں،اوربالآخر نہیں بیٹھے۔[2]
[1] إحياء علوم الدين، بيان فضيلة الزهد 13/2449 [2] طبقات الشافعیۃ الکبری شیخ تاج الدین ابن السبکی : 5/109