کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 40
نے جواب دیا کہ کیاکبھی آپ کو ایسی پگڈنڈی پر چلنے کا اتفاق ہواہے کہ جس کے دونوں جانب کانٹے دار جھاڑیاں ہوں توفرمایاہاں،جناب ابی بن کعب نے عرض کیا پھر آپ نے اس وقت کیاکیایعنی راستے سے کیسے گزرے۔فرمایا میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے دامن کو سمیٹا اورپوری احتیاط کے ساتھ چلنے لگاکہ کوئی کانٹا مبادامیرے کپڑے کو چاک نہ کرے۔فرمایااسی کانام تقویٰ ہے۔یعنی نفس اورشیطان کے بہکاوے کے درمیان احتیاط کے ساتھ احکام الہٰی کو ذہن میں رکھ کر زندگی گزارنے کا نام تقویٰ ہے۔ 3جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا جوبائیں ہاتھ سے اشارہ کررہاتھا انہوں نے اس شخص سے فرمایا،دیکھو جب بات کرو توبائیں ہاتھ سے اشارہ نہ کرو،داہنے ہاتھ سے اشارہ کرو،اس پر وہ شخص کہنے لگا،میں نے آج تک ایساتعجب خیز واقعہ نہیں دیکھا آج ایک شخص نے اپنے سب سے محبوب اورچہیتے کو قبر میں اتاراہے (اسی دن ان کے چہیتے بیٹے جو علم وفضل میں بھی بڑادرجہ رکھتے تھے ،کاانتقال ہوگیاتھا اوراس کو دفن کرکے جناب عمربن عبدالعزیز واپس آرہے تھے)اورپھر اس کو میری فکر ہے کہ میں داہنے ہاتھ سے اشارہ کررہاہوں یابائیں ہاتھ سے،حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا کہ جب اللہ نے کسی شئے کو اپنے لئے پسند کرلیاہے تو تواس کے ذکر کو چھوڑدو ،یہ سن کر اس شخص نے کہاکہ اللہ آپ کو بہتر بدلہ دے۔جنابعمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ فرمایا نہیں بلکہ اللہ اسلام کو میری جانب سے بہتربدلہ دے‘‘۔ [1] آج ہماری عمومی حالت یہ ہے کہ غم تودور کی بات خوشی کے موقع پربھی ہم اپنے قابو میں نہیں رہتے اوربے دھڑک اسلامی فرائض ،شعائر آداب کو ترک کرتے چلے جاتے ہیں۔اس واقعہ سے یہ بھی نصیحت ملتی ہے کہ غم چاہے کتنابڑاہی کیوں نہ ہو لیکن اسلام کے تقاضوں کا خیال سب پرمقدم ہے۔ چنانچہجنابعمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے باوجود شدیدغم واندوہ کے اسلام کے اس حکم پر عمل کیا کہ’الدین النصیحۃ‘یعنی دین خیرخواہی کانام ہے تواگرکوئی ایساکام کررہاہے جواسلام کے خلاف ہے تواس کو صحیح بات بتائی جائے یہی
[1] حلیۃ الاولیاء(5/326) ،کتاب الزھداز امام احمدبن حنبل (300/301)