کتاب: البیان شمارہ 18 - صفحہ 39
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي،ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَھمْ،ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَھُمْ ‘ ’’سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر اس کے بعد والے اور پھر اس کے بعد آنے والے‘‘۔[1] ذیل میں ہم اسی زمانے کی چند مثالوں سے جانتے ہیں کہ سلف صالحین کے نزدیک ورع اور تقویٰ کا کیا معیار و نمونہ تھا ۔و اللہ ولی التوفیق والقادر علیہ ۔ زہد وتقویٰ کےچند سنہرے واقعات 1سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب فتوحات کا سلسلہ جاری تھا تو آپ کی بیٹی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ اے ابا جان !آپ کچھ اچھے قسم کے لباس اپنے لئے سلوالیں کیونکہ آپ کےپاس بہت سے وفود نے آنا ہوگا اور کچھ اچھے قسم کے کھانے پکوایا کریں تاکہ آپ بھی کھائیں اور جو وفد آپ کے پاس آئیں انہیں بھی کھلائیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ کیا تم نہیں جانتی کہ کسی بھی انسان کو سب سے زیادہ اس کے اپنے گھر والے جانتے ہیں! انہوں نے کہا کہ جی ہاں !تمہیں قسم ہے اللہ کی کیا تمہیں نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے فلاں فلاں سال میں خود بھی کچھ نہیں کھایا اور ان کے گھر والے بھی بھوکے رہے اور کئی راتین ایسی گزریں کہ صبح تک کچھ نہیں کھایا اور کئی دن ایسے گزرے کہ رات تک کچھ نہیں کھایا ؟ تمہیں قسم ہے اللہ کی کیا تمہیں نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں سال میں کھجور تک نہیں کھائی یہاں تک کہ اللہ تعالی کی مدد سے خیبر فتح ہوگیا ! تمہیں قسم ہے اللہ کی کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو لباس پہنتے تھے اسے اگر دھوتے تو اس وقت تک نماز کے لئے نہیں نکلتے جب تک کہ وہ خشک نہ ہوجائے تاکہ وہی لباس پہن کر نماز کے لئے آجائیں یہ کہتے کہتے آپ رضی اللہ عنہ روپڑے اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھا کو بھی رلادیا۔یہاں تک ایسا خوف محسوس ہوا کہ آپ کی روح ہی نہ نکل جائے۔[2] 2سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ابی بن کعب سے تقویٰ کے بارے میں دریافت کیاتوانہوں
[1] بخاري حدیث: 2509 ومسلم حدیث:6635 [2] إحياء علوم الدين، بيان فضيلة الزهد 13/2445، 2446